کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 54
جب آپ کی تلاش میں مشرکین کی نقل وحرکت میں کمی آگئی اور وہ آپ کو گرفتار کرنے کے سلسلہ میں مایوس ونا امید ہو گئے تو غار میں تین راتیں گذارنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ غار سے باہر نکلے۔ اس سے قبل ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ سفر ہجرت کے لیے بنو دیل کے عبداللہ بن اریقط نامی شخص کو راستہ کی رہنمائی کے لیے پہلے طے کر لیا گیا تھا اگرچہ وہ مشرک تھا لیکن اس پر مکمل اطمینان ہو جانے کے بعد سواریاں اس کے حوالہ کر دی گئی تھیں اور اس سے یہ بات طے پائی تھی کہ وہ تین راتوں کے بعد ان سواریوں کو لے کر وہاں حاضر ہوگا۔ وعدہ کے مطابق وہ وقت مقررہ پر وہاں پہنچا اور آپ دونوں کو لے کر عام راستہ سے ہٹ کر غیر معروف و معہود راستہ سے چلا، تاکہ پیچھا کرنے والے کفار ومشرکین کو سراغ نہ مل سکے۔[1]
سفر ہجرت میں آپ کا گزر وادی قدید[2] میں ام معبد عاتکہ بنت خالد الخزاعیہ کے خیمہ کے پاس سے ہوا، ان کے بھائی حبیش بن خالد الخزاعی نے ان کا واقعہ بیان کیا ہے، سیرت نگاروں نے اپنی تصانیف میں اس کو جگہ دی ہے۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس قصہ سے متعلق فرماتے ہیں : ’’یہ قصہ مشہور ہے اور مختلف طرق سے مروی ہے جس سے اس کو تقویت مل جاتی ہے۔‘‘[3]
قریش نے مکہ میں یہ عام اعلان کر رکھا تھا کہ جو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ یا مردہ لائے گا اس کو سو اونٹ انعام میں دیے جائیں گے۔ یہ خبر مکہ کے قرب وجوار میں آباد قبائل عرب میں بھی پھیل چکی تھی۔ سراقہ بن مالک بن جعشم کو یہ انعام حاصل کرنے کا شوق دامن گیر ہوا، اس نے یہ انعام حاصل کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن اللہ رب العزت کی قدرت پر کون غالب آسکتا ہے، اللہ کا کچھ ایسا کرنا ہوا کہ نکلے تو تھے گرفتار کرنے کے لیے لیکن آپ کی طرف سے دفاع کرنے والا بن کر لوٹے۔[4]
جب مسلمانان مدینہ کو مکہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کوچ کرنے کی خبر ملی توبے حد خوش ہوئے اور آپ کے انتظار میں روزانہ صبح مدینہ سے باہر نکلتے اور دوپہر تک انتظار کرتے، جب گرمی کی شدت بڑھ جاتی تو واپس ہو جاتے، ایک دن جب انتظار کر کے اپنے گھروں کو واپس ہو گئے تو ایک یہودی اپنے مکان پر کسی کام سے چڑھا۔ اس کی نگاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء پر پڑی جو نہایت سفید اور صاف وشفاف لباس میں ملبوس تھے۔
یہودی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکا اور بلند آواز سے پکارا: عرب کے لوگو! یہ تمھارا نصیب آ پہنچا ہے جس کا تمھیں انتظار تھا۔ یہ آواز سن کر مسلمان اسلحہ لے کر استقبال میں نکل پڑے اور حرہ کے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ دائیں جانب مڑے اور قبا میں بنو عوف کے پاس نزول فرمایا۔ یہ دوشنبہ[5]
[1] المستفاد من قصص القرآن: زیدان، ۲/۱۰۱۔
[2] وادی قدید موجودہ سڑک سے تقریباً ۸ کلو میٹر پر واقع ہے، اسی وادی میں بنو خزاعہ آباد تھے۔
[3] البدایۃ والنہایۃ: ۳/۱۸۸۔
[4] السیرۃ النبویۃ للصابی ۱/۵۴۳۔
[5] حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : دو شنبہ کا دن ہونا ہی صحیح ہے، جمعہ کہنا شاذ ہے۔ الفتح: ۴/۵۴۴۔