کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 539
حرکت میں آگیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش پیش ہیں اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ غزوۂ احد کا پرچم یہاں بھی اٹھائے ہوئے ہیں ، پھر مسلمانو ں کا لشکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں حمراء الاسد تک پہنچتاہے، جو کہ مدینہ سے تیرہ میل کے فاصلے پر ہے، وہاں مسلمانوں نے اپنے کجاوے اتار دیے، مسلمانو ں کی اس جرأت مندانہ اور بہادرانہ حرکت کو دیکھ کر یہودیوں اور منافقوں کا دل خوف سے دہل گیا اور انھیں یقین ہوگیا کہ مسلمانو ں کی روحانی قوت بہت بلند اور مضبوط ہے اور اگر یہ شکست خوردہ ہوتے تو قریش کا پیچھا نہ کرتے۔[1]
(۶)… غزوۂ احزاب سے لے کر وفات نبوی تک
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے اہم کارنامے
غزوۂ احزاب میں :
غزوۂ احزاب میں امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا موقف نہایت شاندار اور شجاعت مندانہ تھا اور اس کا اصل محرک وہ عقیدہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں میں راسخ تھا اور وہ اس کی دعوت دیتے تھے، اس کے راستے میں قربان ہوجانے کو ترجیح دیتے تھے، جو اس کا مخالف ہوتا اس سے لاتعلق رہتے۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی ایک جمعیت لے کرنکلے تاکہ اس جگہ پر قبضہ کرلیں جہاں سے ان سواروں نے گھوڑوں کو گزارا، سوار سامنے سے ووڑے چلے آرہے تھے، عمرو بن عبدہ ود جنگ بدر میں لڑا تھا اور زخمی ہوگیا تھا، اس لیے جنگ احد میں غائب تھا، لیکن جنگ خندق کے موقع پر ایک امتیازی نشان لگا کر آیا تھا تاکہ اسے پہچانا جاسکے، جب وہ اس کے ساتھی رکے تو اس نے پکارکر کہا کہ کون مقابلے پر آتا ہے؟ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ مقابلے پر آئے اور اس سے کہا : عمرو! دیکھو تم نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ اگر کوئی قریشی مجھے کسی بھی دو چیزوں کی دعوت دے گا تو میں قبول کرلوں گا۔ عمرو نے جواب دیا:بے شک علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا پھر میں تجھے اللہ، اس کے رسول کی طرف اور اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔ عمرو نے کہا: مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔ پھر علی رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں تجھے قتال کی دعوت دیتا ہوں ۔ اس نے کہا: برادرزادہ! یہ کیوں ؟ اللہ کی قسم میں تو تمھیں قتل نہیں کرنا چاہتا، علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : مگر اللہ کی قسم ! میں تجھے قتل کرنا پسند کروں گا، اب عمرو غضب ناک ہوا اور گھوڑے سے اچھل کر نیچے اتر آیا، پہلے تلوار گھوڑے کے پاؤں پر ماری، جس سے کو نچیں کٹ گئیں ، پھر اس کے منہ پر مکا رسید کیا تاکہ پیچھے ہٹ جائے، پھر علی رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھا، دونوں میں لڑائی ہوئی، آخرعلی رضی اللہ عنہ نے اس کا خاتمہ کردیا اور باقی سوار شکست کھاکر خندق سے گزرتے ہوئے بھاگ گئے۔[2] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے امام بیہقی کی دلائل النبوۃ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس سلسلے میں عمرو بن ود اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان اشعار کا تبادلہ ہوا، چنانچہ جب عمرو مقابلے کے لیے نکلاتو یہ شعر کہا :
[1] تاریخ الإسلام، المغازی ؍ الذہبی ص (۲۲۶) علی بن أبی طالب ؍ أحمد سید الرفاعی ص (۱؍۱۰)۔
[2] السیرۃ النبویۃ۔ ابن ہشام: ۳؍۲۴۸۔