کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 538
کچھ کہا: اس پر انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حسین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ مشابہ تھے، انھوں نے وسمہ[1] کا خضاب استعمال کر رکھا تھا۔[2] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ غزوۂ احد میں : اس غزوہ میں علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بے باک شجاعت کا مظاہرہ کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ خبر پھیل گئی کہ آپ شہید کردیے گئے اور علی رضی اللہ عنہ کو آپ نظر نہ آئے تو آپؓ نے سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر زندگی میں لطف ہی کیا ہے۔ پھر آپ اٹھے اور تلوار کی میان توڑ دیا اور دشمن پر پل پڑے، مسلمانوں نے آپ کے لیے راستہ خالی کردیا، اچانک آپ کی نگاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی۔[3] آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوگئے اور جانباز بہادروں کی طرح آپ کی طرف سے دفاع کیا، اس جنگ میں آپ کو سولہ (۱۶) ضربیں آئیں ۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ (غزوۂ بنونضیر) میں : محقق مؤرخین کا خیال ہے کہ غزوۂ بنونضیر، غزوۂ احد کے بعد ربیع الاول ۴ھ میں ہوا، او رامام ابن القیم رحمہ اللہ نے محمد بن شہاب زہری وغیرہ مورخین کے اس قول کی تردید کی ہے کہ غزوۂ بنونضیر غزوۂ بدر کے چھ مہینے بعد ہوا، آپ فرماتے ہیں : یہ ان کا وہم ہے، یا ان کی طرف غلط نسبت کر دی گئی ہے، صحیح بات یہ ہے کہ غزوۂ بنونضیر، غزوۂ احد ہی کے بعد ہے۔ غزوۂ بدر کے بعد جوغزوہ ہے وہ غزوۂ بنوقینقاع ہے، اور پھر غزوۂ بنوقریظہ غزوۂ خندق کے بعد اور غزوۂ خیبر غزوۂ حدیبیہ کے بعد ہے۔[4] ابن العربی او رابن کثیر کی بھی یہی رائے ہے۔[5] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ (غزوہ حمراء الاسد): دراصل یہ غزوہ، غزوۂ احد کی تکمیل اور اس کی آخری کڑی ہے، پندرہ شوال ۳ھ کی شنبہ کی شام کو مسلمان غزوۂ احد سے لوٹ کر گھروں کو واپس آئے تھے اور ابھی رات گزار کر فجر کی نماز کے لیے باہر نکلے ہی تھے کہ موذن رسول نے جلد سے جلد دشمنوں کو دور بھگانے کی فورًا تیار کا اعلان کیا، او رکہا کہ اس مہم میں صرف وہی لوگ شریک ہوں ، جنھوں نے غزوۂ احد میں شرکت کی ہو، چنانچہ شرکائے اُحد اگرچہ زخم خوردہ اور تھکن سے چور تھے تاہم اعلان نبوی پر لبیک کہا، اس مہم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیش پیش تھے۔ آپ نے عبداللہ بن ابی کو اپنے ساتھ چلنے کی اجازت نہ دی اور نہ جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حزام رضی اللہ عنہما کے علاوہ کسی دوسرے غیر شرکاء کو شرکت کی اجازت دی، انھیں اجازت اس وجہ سے دی تھی کہ ان کے باپ غزوۂ احد میں شہید ہوگئے تھے اور بدر و اُحد میں خوداس لیے شرکت نہ کرسکے تھے کہ گھر پر اپنی جواں سال بہنوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے، بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہم کو آگے بڑھایا، اور مسلمانوں کا لشکر
[1] وسمہ ایک پودا ہے جو یمن میں پایا جاتا ہے اس کے پتوں سے بالوں کو خضاب کیا جاتا ہے۔ [2] صحیح البخاری ، حدیث نمبر (۳۷۴۸)۔ [3] شرح النووی، صحیح مسلم (۱۲؍۱۴۸)۔ [4] زاد المعاد (۳؍۲۴۹)۔ [5] أحکام القرآن؍ ابن العربی (۴؍۱۷۶۵) حدیث القرآن عن الغزوات (۱؍۲۴۵)۔