کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 537
۳۔ ولیمہ:…سیّدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب جنابِ علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو پیغام نکاح دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّہُ لَابُدَّ لِلْعُرْسِ مِنْ وَلِیْمَۃٍ۔))… ’’شادی کے لیے ولیمہ ضروری ہے۔‘‘ راوی کا بیان ہے کہ سعد نے کہا: میرے پاس ایک دنبہ ہے، پھر چند صحابہ کی جماعت نے مل کر کئی صاع مکئی کا آٹا جمع کیا اور جب شب زفاف آئی تو آپ نے فرمایا: اے علی! مجھ سے ملاقات کرنے سے پہلے تم کوئی اقدام مت کرنا، پھر آپ نے پانی منگوایا اور اس سے وضو کیا، پھر اسے علی رضی اللہ عنہ پر انڈیل دیا، او ریہ دعا دی: ((اَللّٰہُمَّ بَارِکْ فِیْہِمَا وَ بَارِکْ عَلَیْہِمَا وَبَارِکَ فِيْ شِبْلِہِمَا۔))[1] ’’اے اللہ! ان دونوں میں برکت عطا فرما اور ان سے جو بہادر اولاد ہو اس میں بھی خیر و برکت دے دے۔‘‘ آپ کی اولاد یعنی حسن اور حسین رضی اللہ عنہما حسن بن علی بن ابی طالب الہاشمی رضی اللہ عنہما ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے، دنیا میں آپ کے پھول، جنت کے دو نوجوان سرداروں میں سے ایک تھے، آپ کی ماں سیّدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا ہیں ، باختلاف روایات آپ کی ولادت ۳ھ کے نصف رمضان یا شعبان میں ہوئی اور بعض روایات میں ولادت کی تاریخ ۴ھ یا ۵ھ بتائی گئی ہے۔[2] میں نے اپنی تحقیق کے مطابق اپنی ’’کتاب السیرۃ النبویۃ‘‘ میں ۴ھ کو معتبر مانا ہے۔ آپ کی وفات ۵۰ھ میں ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام حسن رکھا، علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب حسن کی ولادت ہوئی تو میں نے ان کا نام ’’حرب‘‘ رکھا، او رجب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو کہا: ’’اَرُوْنِي ابْنِي مَا سَمَّیْتُمُوْہُ‘‘میرا بیٹا مجھے دکھاؤ تم نے اس کا نام کیا رکھا؟ میں نے کہا: حرب۔ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ اس کا نام ’’حسن‘‘ ہے۔[3] حسین بن علی رضی اللہ عنہما : آپ کانام و نسب ابوعبداللہ حسین بن علی بن ابی طالب ہے، آپ چمن زار رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شگفتہ پھول اور آپ کے نواسے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگرسیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لڑکے ہیں ، آپ کی ولادت ۴ھ میں ہوئی، سن ولادت کے سلسلہ میں دیگر اقوال بھی ہیں اور ماہ محرم ۶۱ھ میں بمقام کربلا عاشوراء کے دن شہادت کی موت پائی۔[4] سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک عبید اللہ بن زیاد[5] کے پاس لایا گیا اور ایک طشت میں رکھ دیا گیا تو وہ اس پر لکڑی سے کریدنے لگا اور آپ کے حسن و خوبصورتی کے بارے میں بھی
[1] المعجم الکبیر ؍ الطبرانی، حدیث نمبر (۱۱۵۳)۔ [2] فضائل الصحابۃ ، حدیث نمبر (۲؍۹۶)۔ حلیۃ الأولیاء (۲؍۳۵)۔ [3] صحیح البخاری؍ الادب، حدیث نمبر (۲۸)۔ [4] البدایۃ والنہایۃ (۸؍۳۳۱، ۳۳۴)۔ [5] عبید اللّٰه ۶۷ہجری میں قتل ہوا۔ الإعلام (۴؍۱۹۳)