کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 536
زرہ دی تھی اس کا کیا کیا؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں علی کی جان ہے وہ حطمی (کشادہ) زرہ تھی، اور اس قیمت چار سو درہم تھی۔ میں نے کہا: وہ میرے پاس ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے فاطمہ کی شادی تم سے کردی، اسے بطور مہر فاطمہ کے پاس بھیجو، پس یہی فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق مہر تھا۔[1] پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر ایک مشکیزہ ایک چمڑے کا تکیہ جس میں اذخر بھری ہوئی تھی دے کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رخصت کیا۔[2]
اور شیعی روایات میں آیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، پھر میں نے اپنی زرہ لی اور اسے لے کر بازار میں گیا اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ چار سو درہم میں فروخت کردیا، جب میں نے دراہم اپنے ہاتھ میں لے لیے اورانھوں نے زرہ مجھ سے لے لی، تو کہنے لگے: اے ابوالحسن! کیا اس خرید و فروخت سے میں زرّہ اور ان دراہم کا تم سے زیادہ حق دار کوئی نہیں ہے؟ میں نے کہا: ہاں ضرور۔ پھر کہا: لو یہ زرہ میری طرف سے تمھارے لیے ہدیہ ہے، چنانچہ میں نے دراہم اور زرّہ دونوں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے سامنے رکھ دیے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کہا تھا، وہ بتادیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائی۔[3]
۲۔ شادي:…اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصتی میں موجود تھی، صبح ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے دروازے پر آئے اور کہا: ((یَا أُمَّ أَیْمَنَ! اُدْعِي لِيْ أَخِي)) ’’اے ام ایمن میرے بھائی کو آواز دو‘‘ میں کہنے لگی: وہ تمھارے بھائی ہیں اور ان سے آپ اپنی بچی کا نکاح کر رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ((نَعْمَ! یَا أُمَّ أَیْمَنَ)) ’’ہاں ، اے ام ایمن‘‘ وہ کہتی ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ باہر نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جسم پر پانی کا چھینٹے مارے، اور ان کے لیے دعا خیر کی، پھر فرمایا: ((اُدْعُوا لِيْ فَاطِمَۃَ)) ’’فاطمہ کو میرے پاس بلاؤ۔‘‘ اسماء رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ وہ آئیں اور شرم سے ان کے قدم آگے نہیں بڑھ رہے تھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دھیان سے سنو! میں نے تمھارا نکاح ایسے شخص سے کردیا ہے جو میرے اہل بیت میں میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ پھر آپ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا پر بھی پانی کے چھینٹے مارے، اور ان کے لیے دعائے خیر فرمائی، پھر لوٹ کر جانے لگے کہ اتنے میں آپ کی نظر سامنے ہی ایک سائے پر پڑی، پوچھنے لگے: ((مَنْ ہٰذَا)) ’’یہ کون ہے؟ ‘‘میں بول پڑی کہ میں ہوں ، آپ نے کہا: کون اسماء؟ میں نے کہا: جی ہاں ، آپ نے کہا: اسماء بنت عمیس ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں ، آپ نے کہا: ((جِئْتِ فِيْ زَفَافِ بِنْتِ رَسُولِاللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم تَکْرِمَۃً لَّہُ؟)) ’’کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز و اکرام میں بنت رسول کی رخصتی میں آئی تھیں ؟‘‘ میں نے کہا: ہاں ۔ پھر آپ نے میرے لیے دعا فرمائی۔[4]
[1] دلائل النبوۃ؍ البیہقی (۳؍۱۶۰) اس کی سند حسن ہے۔
[2] صحیح السیرۃ النبویۃ ص (۶۶۷) مسند فاطمۃ الزہراء؍ السیوطی، تحقیق فواد احمد زمرلی ص (۱۸۹)۔
[3] کشف الغمۃ ؍ أربلی (۱؍۳۵۹) بحار الانوار؍ المجلسی ص (۲۹) بحوالہ الشیعۃ و اہل البیت ص (۱۳۷، ۱۳۸)۔
[4] فضائل الصحابۃ (۲؍۹۵۳) حدیث نمبر (۳۴۲)۔