کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 535
۲۔ مہمات و سرایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں جونہی مدینہ میں مسلمانوں کو استقرار حاصل ہوا، انھوں نے فوجی مہمات شروع کردیں ، جن کا مقصدیہ تھا کہ اندرونی و بیرونی سطح پر اسلامی حکومت کا دبدبہ قائم ہوسکے، بعض دیگر قبائل عرب بھی اسلام میں داخل ہوجائیں ، اعراب (بدویوں ) کا مخالفانہ کردار ڈھیلا ہوجائے اور مستقبل میں بڑے بڑے غزوات اور تحریک فتوحات نیز قائدین پیدا کرنے والے عملی میدانوں کے لیے صحابہ کو جنگی مہارت کی تربیت دی جائے، چنانچہ ان مہمات میں علی رضی اللہ عنہ نے شرکت فرمائی۔
٭ غزوہ عشیرہ ٭ غزوۂ بدر اولیٰ
٭ غزوۂ بدر
۳۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی:
یہ فاطمہ بنت امام المتقین سید ولد آدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ماں کا نام خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا ہے۔[1] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے قبل جب کہ آپ کی عمر پینتیس (۳۵) سال تھی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ولادت ہوئی۔[2] ۲ھ میں غزوۂ بدر کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کردی۔ آپ کے بطن سے حسن، حسین رضی اللہ عنہما اورام کلثوم رضی اللہ عنہا کی ولادت ہوئی، وفات نبوی کے چھ مہینے بعدآپ کی بھی وفات ہوگئی۔[3]
۱ مہر اور شادی کا سامان:…سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے نکاح کا پیغام آنے لگا تو میری لونڈی نے مجھ سے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ کے پاس نکاح کا پیغام آنے لگا ہے، میں نے کہا: نہیں ، میں نہیں جانتا۔ اس نے کہا: یقینا ان کے لیے شادی کا پیغام آنے لگا ہے، آپ کیو ں نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس ارادہ سے جاتے کہ وہ آپ سے ان کا نکاح کردیں ، میں نے کہا: میرے پاس ہے ہی کیا کہ جس سے نکاح کروں ، اس نے کہا: اگر آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ رشتہ آپ سے کردیں گے، وہ مسلسل مجھے امید دلاتی رہی یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن آپ کی ہیبت و جلال کی وجہ سے بات نہ کرسکا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود گویا ہوئے اور پوچھا: کیسے آنا ہوا؟ کیا کوئی ضرورت ہے؟ میں خاموش رہا، آپ نے فرمایا: شاید تم فاطمہ کے متعلق پیغام دینے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا، ہاں ۔ پھر آپ نے پوچھا: کیا تمھارے پاس ادائیگی مہر کے لیے کچھ ہے؟ میں نے کہا: کچھ نہیں ہے، اے اللہ کے رسول! آپ نے پوچھا: میں نے تمھیں جو
[1] أسد الغابۃ (۵؍۵۲۰)، الإصابۃ (۴؍۳۶۵)۔
[2] طبقات ابن سعد (۸؍۲۶)۔
[3] حلیۃ الاولیاء (۲؍۳۹) سیر اعلام النبلاء (۲؍۱۱۸، ۱۳۴)، العقیدۃ فی اہل البیت بین الافراط و التفریط، د۔سلیمان السحیمی (۱۳۲)۔