کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 528
چنانچہ اسی تڑپ کے باعث بعد میں آپ وسیع علم اور سنت نبوی کی عمیق معرفت کے مالک بن گئے، دین اسلام کی روح اور اس کے مقاصد واسرار کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا اور عملی زندگی میں برتا۔ درحقیقت دونوں کا تعلق قلبی لگاؤ اور حقیقی محبت پر قائم تھا اور جب معلم و شاگرد کا رشتہ قلبی تعلق پر قائم ہو تو اس سے ایک ممتاز و خوشگوار فضا قائم ہوتی ہے اور تبھی اس کے بہترین علمی و ثقافتی نتائج سامنے آتے ہیں ۔
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ بحیثیت شاگرد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرنے والے تھے، ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فکر مند رہے، آپ کی حفاظت کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اور آپ کی دعوت کو عام کرنے کے لیے ہمہ وقت خود کو قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے تمام تر افعال اطاعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت اور اتباع سنت کی عظمت کے اسی واضح تصور میں ڈوبے ہوتے تھے، آپ سنت نبوی کا خاص اہتمام کرتے اور اسے قبول کرنے اور روایت کرنے میں تحقیق و تنقیح اور جستجو کرتے، آپ کا قول ہے کہ جب میں تمھیں اللہ کے رسول کی کوئی حدیث بتاؤں تو آسمان سے پھینک دیا جانا مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ بات منسوب کروں ۔[1]
اور فرمایا:
’’جب میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بذات خود کوئی حدیث سنی تو اللہ تعالیٰ نے جتنا چاہا مجھے اس سے فائدہ پہنچایا اور جب کسی شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مجھ سے بیان کیا تو میں نے اس سے قسم لی، اگر وہ قسم اُٹھا لیتا تو میں اس کی روایت کو مان لیتا۔‘‘[2]
آپ ان تمام کاموں سے برسرپیکار رہتے، جو اتباع نبوی کے خلاف ہوں ، چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا: اگر دین کا دار و مدار عقل اور رائے پر ہوتا تو موزے کے نچلے حصہ کا مسح کرنا اوپر کے حصے پر مسح کرنے سیبہتر ہوتا ۔[3]
۱۔ طریقۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے التزام کی رغبت دلانا:
آپ تمام لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز زندگی اپنانے کی رغبت دلاتے تھے، چنانچہ مقام ربذہ پر خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا:
’’اپنے دین کو لازم پکڑو، اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلو، آپ کی سنتوں کا اتباع کرو، قرآن کی متشابہات سے بچو، جسے قرآن معروف کہے اسے مان لو اور جسے منکر کہے اسے چھوڑ دو۔‘‘[4]
جب خوارج کی جنگ سے واپس ہوئے تو اپنے ساتھیوں کے درمیان بڑا بلیغ، نفع بخش اور خیر کثیر پر مشتمل خطبہ دیا، اس میں آپ نے طریقۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے التزام پر بہت زور دیا اور فرمایا:
[1] فتح الباری (۶؍۱۵۸)۔
[2] سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر (۱۳۹۵)۔
[3] ابو داؤد (۱۶۲)۔
[4] معجم البلدان: ۳؍۲۴۔