کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 527
(۴) قلبي خشوع اور مسلمانوں کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھنا:…سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اللہ کے اس فرمان کی کیا تفسیر ہے:
﴿ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴾ (المؤمنون:۲)
’’وہی جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں ۔‘‘
آپ نے فرمایا: خشوع دل میں ہوتا ہے ، تم اپنے دل میں مسلمان بھائی کے لیے نرم گوشہ رکھو اور نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہ ہو۔[1] (مزید تفصیل ملاحظہ ہو، سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، ص: ۱۲۴)
(۴)…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ مکہ کے ان باشندوں میں سے ایک فرد تھے، جنھوں نے اپنے ناخواندہ معاشرے میں پڑھنا اور لکھنا سیکھا تھا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو بچپن ہی سے علم سے محبت اور والہانہ لگاؤ تھا۔ اللہ نے آپ کو عہد طفولت ہی سے اس بات کی توفیق بھی دی کہ خانۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پرورش پائیں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں آپ کی تربیت ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہوجانے کے بعد ان پر خصوصی توجہ بھی کی، اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ ترین راہنما شخصیت نے علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو سنوارا، ان کی صلاحیتوں کو نکھارا اور طاقتوں کو بروئے کار لائے، نفس کو مہذب بنایا، دل کو پاک اور عقل کو روشن کیا او ران کی روح کو تازگی بخشی۔
آپ مکہ اور مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے، اور اس بات کے لیے کوشاں رہے کہ قرآنی تعلیمات پر آپ صحابہ کی تربیت کرنے والے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں تربیت پائیں ، اس لیے کہ آپ کی شخصیت مذہبی تربیت کا سرچشمہ تھی، جس سے علی رضی اللہ عنہ نے اپنے علم، تربیت اور ثقافت کو سیراب کیا تھا اور ادھر ہر نئے پیش آنے والے واقعات و حوادث کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآنی آیات تھوڑی تھوڑی کرکے نازل ہو رہی تھیں ۔ آپ انھیں اپنے صحابہ کو پڑھ کر سناتے تھے، جو اس کے معانی کو سمجھ سکیں ، ان کی گہرائی تک پہنچ سکیں اور ان پر عمل پیرا ہو سکیں ۔ آپ کے اس طریقۂ تربیت کا صحابہ کے دل و دماغ پر گہرا اثر پڑتا تھا۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ بھی ان صحابہ میں سے ایک تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے قرآنی تربیت سے بھرپور متاثر ہوئے، اور نبوی تعلیمات و توجیہات کا جام نوش کیا، آپ نے اسلام لانے کے بعد سے قرآن حفظ کرنے، اسے سمجھنے اور اس میں غور کرنے کا اہتمام کیا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے، جو آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتیں ، آپ انھیں یاد کرلیتے، اس طرح آپ پورے قرآن کے حافظ ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و تربیت کی برکت سے آپ خیر کثیر کے مالک بن گئے اور بعد میں خلفائے راشدین میں سے ہوئے۔ آپ ہمیشہ اس بات پر حریص رہے کہ جنگ و صلح دونوں حالتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو سیکھا جائے۔
[1] الزہد؍ ابن المبارک ص (۴۰۳) اثر نمبر (۱۱۴۸)۔