کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 526
تمام تر شرعی احکامات موجود ہیں ، اسی لیے اکثر کہا کرتے تھے: ’’اللہ تعالیٰ کسی چیزکو بھولنے والا نہیں ہے‘‘[1] اور شرعی حکم بتاتے ہوئے عموماً قرآن سے استدلال کرتے اور آیت کریمہ پڑھ کر سناتے، چنانچہ مسائل کے استنباط کے لیے آپ نے جو معیار مقرر کیا تھا وہ یہ تھا: ۱۔ قرآن کے ظاہری معنی پر عمل کرنا ۲۔ مجمل آیت کو مفسر پر محمول کرنا ۳۔ مطلق کو مقید پر محمول کرنا ۴۔ ناسخ و منسوخ کا علم ۵۔ لغت عرب پر گہری نظر ۶۔ قرآن کی ایک نص کو دوسری نص سے سمجھنا ۷۔ مشکل آیات کے بارے میں استفسار کرنا ۸۔ سبب نزول کا علم ۹۔ عام حکم کی تخصیص ۱۰۔ اہل عرب اور ان کے مضافات کے باشندوں کے عادات و خصائل سے واقفیت ۱۱۔ قوت فہم اور معلومات کی وسعت (تفصیل ملاحظہ ہو: سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، ص: ۱۱۳) علی رضی اللہ عنہ سے منقول چند آیات کی تفسیریں (۱) امام ثوری حبیب بن ابی صامت سے اور وہ ابوطفیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابن الکواء کو علی رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہوئے سنا کہ اللہ کے ارشاد: ﴿ وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا ﴾ سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: ہوائیں ۔ پھر ﴿ فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا ﴾ کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: کشتیاں اور ﴿ فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا﴾ کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: اس سے فرشتے مراد ہیں ۔ (۲) فرمان الٰہي: ﴿ فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ ﴾ (التکویر:۱۵): سعید بن منصور نے بسند حسن علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: اس سے وہ ستارے مراد ہیں ، جو رات میں چھپ جاتے ہیں اوردن میں پیچھے ہٹ جاتے ہیں ، پھر نظر نہیں آتے۔[2] (۳) بندۂ صالح کي وفات پر زمین کا رونا:…سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جب کوئی نیک بندہ مرجاتا ہے تو اس کی سجدہ گاہ اور زمین و آسمان میں اس کے عمل اٹھائے جانے کی جگہیں اس کے لیے روتی ہیں ۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ﴿ فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ ﴾ (الدخان:۲۹) ’’پھر نہ ان پر آسمان وزمین روئے اورنہ وہ مہلت پانے والے ہوئے۔‘‘
[1] الخلافۃ الراشدۃ؍ یحییٰ الیحیی ص (۴۸۶)۔ [2] ایضًا، ص (۴۸۷) الفتح (۸؍۵۶۳)۔