کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 525
خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ﴾ انھیں حضرات حمزہ، علی، عبیدہ، یا ابوعبیدہ بن الحارث رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازل ہوئی؟ بیان کیا کہ یہ وہی ہیں جو بدر کی لڑائی میں مبارزت کے لیے تنہا تنہا نکلے تھے۔ حمزہ، علی، عبیدہ یا ابوعبیدہ ابن الحارث رضی اللہ عنہم (مسلمانوں کی طرف سے) اور شیبہ بن ربیعہ ، عتبہ اور ولید بن عتبہ (کفار قریش کی طرف سے)۔ [1]
امت محمدیہ کے لیے آپ نہایت شفیق ثابت ہوئے:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ (المجادلۃ:۱۲)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم رسول سے سرگوشی کرو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ پیش کرو، یہ تمھارے لیے زیادہ اچھا اور زیادہ پاکیزہ ہے، پھر اگر نہ پاؤ تو یقینا اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’مُرْہُمْ اَنْ یَّتَصَدَّقُوْا‘‘ ان سے کہو صدقہ دیں ۔ علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کتنا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بِدِیْنَارٍ‘‘ ایک دینار۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فَنِصْفُ دِیْنَارٍ‘‘ تو نصف دینار۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کے پاس اتنی بھی طاقت نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب کتنا؟ علی رضی اللہ عنہ نے جواب د یا: ایک جو کے برابر سونا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر علی سے کہا: ’’إِنَّکَ لَزَہِیْدٌ‘‘ تم بہت کم کرنے والے ہو، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿ أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ﴾ (المجادلۃ:۱۳)
’’کیا تم اس سے ڈر گئے کہ اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقے پیش کرو، سو جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے تم پر مہربانی فرمائی تو تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘
پھر علی رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے، میری وجہ سے اللہ نے اس امت کے یے یہ آسانی پیدا کی۔[2]
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک قرآن مجید سے
مسائل مستنبط کرنے کے اصول و مبادی
امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو قرآن اور علوم قرآن کا گہرا علم تھا اور آپ کا یہ عقیدہ تھا کہ قرآن میں ضمناً یا صراحتاً
[1] بخاری، رقم الحدیث : ۳۹۶۵۔
[2] سنن الترمذی، حدیث نمبر (۳۲۹۷) امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث ’’حسن غریب‘‘ ہے۔ امام البانی نے ’’ضعیف موارد الظمان إلی زوائد ابن حبان‘‘ ص (۱۲۷، ۱۲۸) پر اسے ضعیف کہا ہے۔