کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 522
آپ کے نکلنے کا انتظار کرتے رہیں ، اور بستر ہی دیکھتے رہ جائیں ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ آج رات وہ میرے بستر پر رات گزاریں ، دشمن خانۂ نبوی کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور نبی کی تاک میں گھات لگائے بیٹھا ہے کہ آپ کب نکلیں اور وہ آپ کو قتل کردے، آپ غور کریں کہ ایسے وقت میں بستر نبوی پر سونے کی جرأت کون کرسکتا ہے؟ اور کون ہے جو یہ جاننے کے باوجود کہ ہم دشمن کے نرغے میں ہیں اور بستر رسول پر جو بھی رہے گا بلاتفریق اسے قتل کردیا جائے گا، پھر بھی وہ جان جوکھوں میں ڈالے گا؟ بلاشبہ کوئی بہت بڑا جرأت مند بہادر ہی اسے کرسکتا ہے؟[1] علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بستر پر چھوڑتے ہوئے یہ حکم دے گئے کہ ابھی کچھ دن مکہ میں ٹھہرے رہو تاکہ دشمنان مکہ کی جو امانتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھی ہوئی ہیں ، انھیں صحیح سالم ان تک پہنچا دو،یقینا یہ کمال عدل اور ادائیگی امانت کی بہت بڑی دلیل ہے۔[2] ہجرت: جب صبح ہوئی تو علی رضی اللہ عنہ اپنے بستر سے اٹھے، محاصرہ کرنے والوں نے آپ کو پہچان لیا اور انھیں یقین ہوگیا کہ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) خود کو بچا لے گئے، تو انھو ں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تمھارا ساتھی کہاں گیا؟ آپ نے جواب دیا: میں نہیں جانتا، کیا میں ان کی نگرانی کر رہا تھا؟ تم لوگوں نے انھیں نکل جانے کو کہا تو وہ نکل گئے۔ علی رضی اللہ عنہ کے اس جرأت مندانہ جواب سے وہ سب سکتے میں آگئے او رکڑی نگرانی کے باوجود درمیان سے نبی کے نکل جانے پر غصے سے تلملا اٹھے، ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا تھا، وہ آپ کو دیکھ نہ سکے تھے، بالآخرعلی رضی اللہ عنہ کو جھڑکنے اور مارنے لگے، گھسیٹ کر مسجد حرام تک لے گئے، ایک گھنٹہ قید میں رکھا اور پھر چھوڑ دیا۔[3] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کے راستہ میں سب مصائب کو برداشت کیا، ان کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی و نجات کی خوشی ہر مصیبت پر بھاری رہی، آپ پیچھے نہیں ہٹے، او رنہ ہی رسول کی پناہ گاہ کے بارے میں کسی کو مطلع کیا، پھر آپ مکہ کی آبادی میں چلے گئے، اور گلیوں و گزرگاہوں پر چل چل کر لوگوں کو وہ امانتیں واپس دے رہے تھے جسے واپس کرنے کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے پیچھے چھوڑا تھا، چنانچہ جس کی جو امانت تھی آپ نے اس تک اسے پہنچا دیا۔ اس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ سے امانتوں کا بوجھ ہٹ گیا اور پھر تین دن مکہ میں گزارنے کے بعد علی رضی اللہ عنہ سفر ہجرت کی تیاری میں لگ گئے، تاکہ جلد ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوجائیں ۔[4] بہرحال آپ نے ہجرت کاسفر جاری رکھا، دن میں روپوش رہتے اور جب رات اپنی سیاہ چادر پھیلاتی تو سفر شروع کردیتے، اس طرح چلتے چلتے مدینہ پہنچ گئے، چلنے سے دونوں پاؤں پھٹ چکے تھے۔ [5]
[1] الحکمۃ فی الدعوۃ إلی اللّٰه ؍ القحطانی ص (۲۳۵)۔ [2] الطبقات الکبریٰ (۳؍۲۲) تاریخ الخلفاء ؍ السیوطی ص (۱۶۶)۔ [3] تاریخ الطبری (۲؍۳۷۴)۔ [4] تاریخ الطبری (۲؍۳۸۲) البدایۃ والنہایۃ (۷؍۳۳۵) جولۃ تاریخیۃ ص (۴۲۴)۔ [5] الکامل (۲؍۱۰۶)۔