کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 521
کندھے کی ہڈی چوڑی تھی، ہتھیلیاں سخت تھیں ، گردن مثل ایک چاندی کی صراحی تھی، ان کی چاند پر بال نہیں تھے، مگر گدی اور سر پیچھے کی طرف بالوں سے بھرا ہوا تھا، داڑھی بڑی تھی، دونوں طرف کی ہڈیاں شیر کے کندھے کی ہڈیوں جیسی مضبوط تھیں ، کلائی اور بازوں میں فرق نہیں تھا، یعنی دونوں ایک سے تھے، ٹھوس اور مضبوط تھے، چلنے میں آگے کو جھک کر چلتے تھے، جب کسی کی کلائی پکڑ لیتے تو اس شخص کا گلا گھٹ جاتا اور وہ سانس نہیں لے سکتا تھا، رنگ میں گندم گوں تھے، کلائی اور ہاتھ سخت تھے۔ جب جنگ کے لیے نکلتے تو پورے اطمینان قلب کے ساتھ تیز رفتاری سے چلتے۔ نہایت طاقتور بہادر تھے۔ [1] قبول اسلام: اللہ تعالیٰ نے علی بن ابی طالب کے حق میں جو خصوصی انعام، اور خیر وبرکت مقدر کر رکھا تھا، اس کا ظاہری سبب یہ ہوا کہ قریش سخت تنگ حالی کی مصیبت سے دوچار ہوئے، اورابوطالب کثیر العیال تھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس سے جو خوشحال لوگوں میں سے تھے، کہا: چچا!آپ کے بھائی ابوطالب کثیر العیال ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ لوگ کس طرح مصیبتوں سے دوچار ہیں ، چلیے ان کا کچھ بوجھ ہلکا کریں ، ان کے بال بچوں میں سے ایک کی پرورش میں اپنے ذمہ لیتا ہوں ، اورایک آپ اپنے ذمہ لے لیں ، عباس نے کہا: ٹھیک ہے۔ چنانچہ دونوں ابوطالب کی خدمت میں پہنچے او رکہا: ہم دونوں اس لیے آئے ہیں کہ جب تک یہ تنگی اور سختی کا زمانہ ہے، اور جس میں سب ہی گرفتار ہیں ، اس وقت تک ہم آپ کے بال بچوں کا کچھ بوجھ اپنے ذمہ لے کر آپ کی پریشانیوں کو ہلکا کریں ، ابوطالب نے ان دونوں سے کہا: عقیل کو میرے پاس چھوڑ دو، باقی کے بارے میں جس طرح چاہو فیصلہ کرلو، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری خود لی، اور جعفرکی کفالت عباس رضی اللہ عنہ نے قبول فرمائی،علی رضی اللہ عنہ اس وقت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ رہے، یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے نبی بنا کر مبعوث کیا اور علی بن ابی طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کیا، آپ کی صداقت پر ایمان لائے، اور تصدیق کی، جبکہ جعفر عباس رضی اللہ عنہ کی کفالت میں رہے یہاں تک کہ اسلام لیے آئے، اور کفالت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔[2] (۲)…قبولِ اسلام اور ہجرت سے قبل مکہ کے اہم کارنامے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر علی رضی اللہ عنہ کی فدائیت و جاں نثاری: جب قریش کے لوگ دار الندوہ میں اکٹھا ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل اور آپ کے صفایا کرنے پر متفق ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سازش سے آگاہ کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی مخلوق میں سب سے بڑے حکیم و دانا تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ جو لوگ آپ کو قتل کرنے آئے ہیں ایسا کیوں نہ ہو کہ وہ
[1] الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب (۳؍۱۱۲۳) [2] السیرۃ النبویۃ ؍ ابن ہشام (۱؍۲۴۶)۔