کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 52
’’اللہ کی قسم! اے مکہ اللہ کی سر زمین میں تو سب سے بہتر اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ چل پڑے۔
مشرکین مکہ نے آپ کا پیچھا کیا اور نقوش قدم کے سہارے جبل ثور تک پہنچ گئے، وہاں پہنچ کر نقوش خلط ملط ہو گئے، کچھ نہ سمجھ سکے، پہاڑ کے اوپر چڑھے، غار کے پاس سے گزرے، دیکھا غار کے منہ پر مکڑی کا جالا ہے، کہا: اگر اس کے اندر کوئی گیا ہوتا تو مکڑی کا جالا نہ رہتا۔[1]
ارشاد ربانی ہے:
﴿وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ ﴾ (المدثر:۳۱)
’’تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘
تمام اسباب کو اختیار کرنے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اسباب پر بھروسا کر کے نہیں بیٹھے بلکہ اللہ رب
العالمین پر مکمل بھروسہ رکھا اور نصرت وتائید کی پوری امید اللہ ہی سے وابستہ رکھی اور اللہ کی سکھائی ہوئی یہ دعا برابر پڑھتے رہے: [2]
آیت
﴿وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا ﴾ (الاسراء: ۸۰)
’’اور یہ دعا کیا کریں کہ اے میرے پروردگار! مجھے جہاں لے جا اچھی طرح لے جا اور جہاں سے نکال اچھی طرح نکال، اور میرے لیے اپنے پاس سے غلبہ اور امداد مقرر فرما دے۔‘‘
اس آیت کریمہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا سکھائی ہے تاکہ آپ خود یہ دعا کریں اور آپ کی امت یہ سیکھے کہ وہ کس طرح اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور کس طرح اس کی طرف متوجہ ہو۔
آغاز و انجام کی سچائی سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پورا سفر آغاز و اختتام، اوّل و آخر اور درمیان سب سچائی کے ساتھ انجام پذیر ہو، اس موقع پر سچائی کی اس حیثیت سے بڑی قیمت و اہمیت ہے کہ مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کلام سے پھیر کر اللہ پر افتراء پردازی پر ابھارنا چاہتے تھے، اس کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کر رہے تھے اور اسی طرح سچائی کے آثار و نتائج بے بہا ہیں ، مثلاً ثبات، اطمینان، نظافت، اخلاص۔ ﴿وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا﴾ ’’اور میرے لیے اپنے پاس سے غلبہ و امداد مقرر فرما
[1] مسند احمد: ۱/۳۴۸، لیکن یہ روایت ضعیف ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، السلسلۃ الضعیفۃ للالبانی: ۳/۳۶۰۔ ۳۶۴ (۱۱۲۹) (مترجم)
[2] الہجرۃ النبویۃ المبارکۃ: ۷۲۔