کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 518
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوازا تھا، جب آپ کو ابوتراب کہہ کر پکارا جاتا تھا تو آپ بہت خوش ہوتے تھے، اس کنیت کی وجہ یہ تھی کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئے تو علی رضی اللہ عنہ کو گھر پر نہ پایا، آپ نے پوچھا:’’ تمھارے سسر زاد (شوہر) کہاں ہے؟ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ایک معاملہ پر میرے او ران کے درمیان اَن بَن ہوگئی، وہ مجھ سے ناراض ہو کر یہاں سے چلے گئے، میرے پاس قیلولہ بھی نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے کہا: دیکھو وہ کہاں گئے، وہ صاحب تلاش کرکے لوٹے تو بتایا کہ اے اللہ کے رسول! وہ مسجد میں سو رہے ہیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے، دیکھا تو وہ بے خبر سو رہے ہیں اور نصف چادر زمین پر ہے، اور جسم پر مٹی لگی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علی رضی اللہ عنہ کے جسم سے مٹی جھاڑنے لگے اور کہا:
((قُمْ أَبَا تُرَاب۔))[1]…’’اے ابو تراب! اٹھ جاؤ۔‘‘
اور صحیح بخاری کی روایت ہے کہ واللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے آپ کو اس کنیت سے نوازا ہے۔[2]
آپ کی ایک کنیت ابوالحسن والحسین، اور ابوالقاسم، ہاشمی ہے۔[3] نیز ابوالسبطین ایک کنیت ہے۔[4]
لقب:…آپ کا لقب امیر المومنین اور چوتھے خلفیۂ راشد ہیں ۔[5]
پیدائش:
اس سلسلے میں روایات متعدد و مختلف ہیں کہ آپ کی پیدائش کس سن میں ہوئی، چنانچہ حسن بصری کے نزدیک آپ کی ولادت بعثت نبوی سے پندرہ یا سولہ برس پہلے ہوئی۔[6]جبکہ ابن اسحاق رحمہ اللہ کے نزدیک آپ کی ولادت بعثت نبوی سے دس برس پہلے ہوئی۔[7] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوسرے قول کو راجح قرار دیا ہے۔ [8] اور الباقر محمد بن علی نے اس سلسلے میں دو اقوال نقل کیے ہیں : ایک تو ابن اسحاق کی تحقیق کے مطابق کہ جسے حافظ ابن حجر نے بھی راجح مانا ہے، یعنی بعثت نبوی سے دس برس پہلے۔[9] دوسرا یہ کہ آپ کی ولادت بعثت نبوی کے پانچ سال پہلے ہوئی۔[10] میرا رجحان حافظ ابن حجر اور ابن اسحاق کے قول کی طرف ہے یعنی صحیح تحقیق کے مطابق آپ کی ولادت بعثت نبوی
[1] صحیح مسلم، حدیث نمبر (۲۴۰۹)۔
[2] صحیح البخاری، حدیث نمبر (۴۴۱، ۳۷۰۳، ۳۲۸۰)۔
[3] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۲۳)
[4] اسد الغابۃ (۴؍۱۶) سبطین سے مراد حسن اور حسین ہیں ۔
[5] تاریخ الإسلام؍ الذہبی، ص (۲۷۶) البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۲۳) خلاصۃ تہذیب الکمال (۲؍۲۵۰)۔
[6] المعجم الکبیرللطبرانی (۱؍۵۴) رقم (۱۶۳) اس کی سند مرسل ہے۔
[7] السیرۃ النبویۃ (۱؍۲۶۲) اس کی سند مذکور نہیں ہے۔
[8] الاصابۃ (۲؍۵۰۱)
[9] المعجم الکبیر للطبرانی (۱؍۵۳) (رقم (۱۶۵) اس کی سند حسن ہے۔
[10] المعجم الکبیر للطبرانی (۱؍۵۳) (رقم (۱۶۶) محمد الباقر تک اس کی سند حسن ہے، لیکن انھوں نے مرسلاً روایت کیا ہے۔