کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 51
عرض کیا: ان میں سے ایک آپ کے لیے ہے، آپ لے لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بشرط قیمت۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ہم نے آپ دونوں کے لیے اچھے طریقے سے سامان سفر تیار کیا اور توشہ تیار کر کے ایک تھیلے میں رکھا، اسماء نے اپنی کمر بند پھاڑ کر تھیلے کو باندھ دیا، اسی وجہ سے ان کا نام ’’ذات النطاقین‘‘ پڑ گیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ غار ثور میں پناہ گزیں ہوئے اور تین راتیں وہاں چھپے رہے۔ عبداللہ بن ابوبکر جو انتہائی ذہین اور فہم و فراست کے مالک نوجوان تھے، غار میں جا کر آپ لوگوں کے ساتھ رات گزارتے اورآخر شب میں وہاں سے مکہ آجاتے گویا کہ آپ نے مکہ ہی میں لوگوں کے ساتھ رات گزاری ہے۔ دن بھر مکہ میں آپ دونوں سے متعلق جو سازشیں ہوتیں ان کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیتے اور جب رات کی تاریکی چھا جاتی تو غار میں پہنچ کر تمام خبریں پہنچا دیتے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ کچھ رات گئے بکریاں لے کر وہاں سے گزرتے اور تازہ تازہ دودھ نکال کر آپ دونوں کو پیش کرتے اور صبح سے قبل آخری شب کی تاریکی میں وہاں سے کوچ کر جاتے، تینوں رات یہی کیفیت رہی۔ بنو عبد بن عدی کی شاخ بنو دیل کے ایک شخص کو جو راستے کا ماہر تھا، اجرت پر راستہ دکھانے کے لیے طے کیا، یہ شخص آل عاص بن وائل سہمی کا پکا حلیف تھا اور کفار قریش کے دین پر قائم تھا، جب اس کے سلسلہ میں اچھی طرح اطمینان ہو گیا تو اپنی دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کیں اور تین راتوں کے بعد غارِ ثور کے پاس صبح سویرے آنے کو کہا۔ عامر بن فہیرؓہ بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہو لیے، اس طرح یہ چار نفری قافلہ ہجرت پر روانہ ہوا اور وہ راستہ بتانے والا آپ لوگوں کو ساحلی راستہ سے لے کر روانہ ہوا۔[1] جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے روانہ ہوئے تو علی، ابوبکر اور آل ابوبکر رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی کو اس کی اطلاع نہ تھی اور جب نکلنے کا وقت موعود آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر کے پچھلے دروازے سے نکلے[2] تاکہ مکمل رازداری میں اس سفر کا آغاز ہو، کسی کو اطلاع نہ ہونے پائے کیونکہ قریش سے خطرہ تھا کہ وہ آپ کا پیچھا کر کے اس سفر مبارک سے آپ کو روک دیں گے۔[3] اور مکہ سے نکلتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی[4] مکہ کے بازار ’’حزورہ‘‘ میں کھڑے ہو کر فرمایا: ((واللّٰہ انک لخیر ارض اللّٰه ، واحب ارض اللّٰه ، الی اللّٰہ ولو لا انی اخرجت منک ما خرجت۔))[5]
[1] البخاری: مناقب الانصار، باب ہجرۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ، رقم: ۳۹۵۔ [2] الہجرۃ فی القرآن الکریم: ۳۳۴۔ [3] خاتم النبیین لابی زہرہ: ۱/۶۵۹، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر: ۲/۲۳۴۔ [4] السیرۃ النبویۃ لابن کثیر: ۲/۲۳۰ـ ۲۳۴۔ [5] الترمذی: المناقب، باب فضل مکۃ ۵/۷۲۲۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: صحیح الترمذی: ۳۲۵، وصحیح ابن ماجہ: ۳۱۰۹۔