کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 507
مسافر سب کے لیے وقف کر دینا تھا۔ مسجد نبوی کی توسیع اور لشکر تبوک پر بھاری خرچ کیا۔
۱۴۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں بے شمار احادیث وارد ہیں ان میں کچھ وہ احادیث ہیں جو دوسروں کے ساتھ آپ کی فضیلت پر مشتمل ہیں اور کچھ وہ ہیں جن میں صرف آپ کی فضیلت بیان ہوئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتنہ کی بھی خبر دی تھی جس میں عثمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے۔
۱۵۔ عثمان رضی اللہ عنہ عہد صدیقی میں ان صحابہ اور اہل شوریٰ میں تھے جن کی رائے اہم اور بنیادی مسائل میں لی جاتی تھی۔ آپ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مرتبہ میں دو میں سے دوسرے تھے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عزم و حزم اور شدائد کے لیے اور عثمان رضی اللہ عنہ رفق و نرمی اور صبر و حلم کے لیے مشہور تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ خلافت صدیقی کے وزیر اور عثمان رضی اللہ عنہ جنرل سکریٹری، ناموس اعظم اور کاتب اکبر تھے۔
۱۶۔ عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک آپ کا بڑا اونچا مقام و مرتبہ تھا، لوگوں کو جب عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ سوال کرنا ہوتا تو عثمان بن عفان اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کا سہارا لیتے۔ (عثمان رضی اللہ عنہ کو ردیف کہا جاتا تھا۔ ردیف عربی زبان میں نائب کو کہا جاتا ہے، صدر مملکت کے بعد لوگ انہی سے امیدیں وابستہ رکھتے ہیں ) اور جب یہ دونوں نہ کر سکتے تو ان کے ساتھ عباس رضی اللہ عنہ کو بھی شریک کر لیتے تھے۔
۱۷۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے افضل ترین اعمال میں شوریٰ کے وقت اپنے آپ کو خلافت سے الگ کر لینا اور اس شخص کا انتخاب کرنا ہے جس کا اصحاب حل و عقد نے مشورہ دیا اور اس سلسلہ میں عثمان رضی اللہ عنہ پر امت کو متفق کرنے میں اپنے فرائض منصبی کو بحسن و خوبی ادا کیا۔
۱۸۔ شوریٰ اور عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے سلسلہ میں روافض اور شیعوں نے باطل اور جھوٹی روایتوں کو تاریخ اسلامی میں بھر دیا ہے اور مستشرقین نے اس کو لے کر اس کی خوب نشر و اشاعت کی اور بہت سے مورخین اور جدید مفکرین اس سے متاثر ہوئے ان روایتوں کو پرکھنے اور ان کی سند و متن کی تحقیق کرنے کی زحمت نہ کی پھر یہ جھوٹی روایات مسلمانوں میں پھیل گئیں ۔
۱۹۔ بے شمار دلائل ہیں جو بتاتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ خلافت کے زیادہ مستحق تھے، اور متمسکین کتاب و سنت کے نزدیک اس سلسلہ میں کوئی نزاع اور اختلاف نہیں ہے۔ آپ کی خلافت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسی طرح صحابہ کرام کے بعد آنے والے اہل سنت الجماعت (جنھوں نے صحابہ کا راستہ اختیار کیا ہے) کا اس بات پر اجماع ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت نبوت کے سب سے زیادہ مستحق عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔
۲۰۔ جب عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت ہوئی تو آپ نے لوگوں کو خطاب فرمایا اور اپنے سیاسی منہج کا اعلان فرمایا اور یہ واضح کیا کہ وہ کتاب و سنت اور شیخین کی سیرت کا التزام کریں گے اور اس طرف بھی اپنے خطاب میں اشارہ فرمایا کہ وہ علم و حکمت کے ساتھ حکومت کریں گے الا یہ کہ لوگ خود اپنے اوپر حدود کو عائد کر لیں ۔