کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 504
سے امت آج تک افتراق و اختلاف کا شکار ہے۔[1] دلوں میں افتراق رونما ہوا، بڑی مصیبتیں ہوئیں ، شرپسند غالب آئے خیر پسند ذلیل ہوئے، فتنہ میں ان لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جو اس سے عاجز تھے، اور خیر و صلاح سے وہ لوگ عاجز آگئے جن کی فطرت و عادت خیر و فلاح کی آماجگاہ تھی۔ لوگوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بیعت کی آپ اس وقت خلافت کے سبب سے زیادہ مستحق تھے اور جو باقی تھے ان میں افضل تھے، لیکن دلوں میں افتراق و اختلاف پیدا ہو چکا تھا، فتنہ کی آگ بھڑک اٹھی تھی لہٰذا اتفاق پیدا نہ ہوا جماعت منظم نہ ہوئی، خلیفہ اور امت کے اچھے لوگ چاہتے ہوئے بھی اپنے مقاصد خیر کو پورا نہ کر سکے اور فتنہ و افتراق میں بہت سی قومیں داخل ہو گئیں ۔[2]
عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری سالوں میں آہستہ آہستہ اسلامی فتوحات میں ضعف پیدا ہونا شروع ہوا، جب سبائی فتنے نے اسلامی شہروں اور مرکز خلافت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے وقت اسلامی فتوحات کا سلسلہ بند ہو گیا اور یہ سلسلہ بند رہا بلکہ بعض مقامات پر مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کا آغاز ہوا اور عالم اسلام کے اندر استقرار پیدا ہوا، امن و امان بحال ہوا اور پھر مشرق و مغرب اور شمال میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ پورے آب و تاب سے شروع ہوا۔[3]
[1] مجموع الفتاوی (۲۵؍۱۶۲)
[2] ایضًا
[3] احداث و احادیث فتنۃ الہرج ص (۵۹۱)