کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 503
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ : آپ نے فرمایا: عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل نہ کرو اگر تم نے ایسا کیا تو کبھی ایک ساتھ نماز نہ پڑھ سکو گے۔[1] اور ایک روایت میں ہے: اللہ کی قسم تم خون عثمان کو ایک سینگی بھر بھی بہاؤ گے تو اللہ سے دور ہو جاؤ گے۔[2] حسن بن علی رضی اللہ عنہما : طلق بن خشاف سے روایت ہے کہ ہم مدینہ گئے، ہمارے ساتھ قرط بن خیثمہ تھے ہم حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے ملے، آپ سے قرط نے کہا: امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کو کیوں قتل کیا گیا؟ فرمایا: مظلوم قتل ہوئے۔[3] سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ : یزید بن ابی عبیدہ سے روایت ہے کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل ہوا تو سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ جو بدری صحابی ہیں ، مدینہ چھوڑ کر ربذہ چلے گئے اور موت سے کچھ دن قبل تک وہیں رہے۔[4] عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما : ابو حازم سے روایت ہے کہ میں عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے پاس تھا آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ کا تذکرہ فرمایا، آپ کے فضائل و مناقب اور قرابت کا ذکر اس طرح کیا کہ وہ شیشہ سے بھی صاف و ستھرا تھا پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا، آپ کے فضائل و سبقت و قرابت کا ذکر اس طرح کیا کہ وہ شیشہ سے بھی صاف و ستھرا تھا۔ پھر فرمایا جو شخص ان دونوں کا تذکرہ کرے اس کو اس طرح ان کا تذکرہ کرنا چاہیے ورنہ نہ کرے۔[5]عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : عثمان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا نہ کہو، ہم انہیں اپنے بہترین لوگوں میں شمار کرتے تھے۔[6] دوسرے فتنوں کے برپا ہونے میں قتل عثمان رضی اللہ عنہ کا اثر قتل عثمان رضی اللہ عنہ کا فتنہ دوسرے بہت سے فتنوں کے برپا ہونے کا سبب ثابت ہوا اور اس کا پر تو ان فتنوں پر پڑا جو اس کے بعد پیدا ہوئے۔ لوگوں کے دل بدل گئے، جھوٹ عام ہوا، عقیدہ و شریعت میں اسلام سے انحراف کا آغاز ہوا۔[7]عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل لوگوں کے درمیان فتنوں کے برپا ہونے میں عظیم ترین سبب قرار پایا، اور اس کے سبب
[1] معرفۃ الصحابۃ (۱؍۲۴۵)، المعجم الکبیر (۱؍۴۶) [2] تحقیق مواقف الصحابۃ (۳؍۳۴) فضائل الصحابۃ، اسنادہ حسن [3] الطبقات (۳؍۸۱) [4] تاریخ المدینۃ (۴؍۱۴۵) [5] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۷۹) [6] تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍۳۷۹)، فضائل الصحابۃ، اسنادہ صحیح۔ [7] احداث و احادیث فتنۃ الہرج ص (۵۹۰)