کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 501
٭ جب عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورہ و اجماع کے بعد ایک قراء ت پر لوگوں کو جمع کیا تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو ذمہ داری عثمان رضی اللہ عنہ پر ڈالی گئی اگر مجھ پر ڈالی جاتی تو میں وہی کرتا جو عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔[1]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما :
امام احمد نے اپنی سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ اگر سب لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر جمع ہوتے تو ان پر اسی طرح پتھر برسائے جاتے جس طرح قوم لوط پر پتھر برسائے گئے تھے۔[2] اور آپ عثمان رضی اللہ عنہ کی مدح اور ان کی تنقیص کرنے والوں کی مذمت میں فرماتے ہیں : ابو عمرو پر اللہ رحم فرمائے اللہ کی قسم آپ اقارب پر سب سے زیادہ نوازش کرنے والے، نیکو کاروں میں سب سے افضل، بوقت سحر کثرت سے عبادت کرنے والے، جہنم کے ذکر کے وقت بہت زیادہ آنسو بہانے والے، ہر فیاضی کے وقت اٹھ کھڑے ہونے والے، ہر عطیہ کی طرف سبقت کرنے والے، انتہائی محبوب، خوددار اور وفادار تھے، آپ لشکر تبوک کو تیار کرنے والے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے۔ جو آپ پر لعنت کرے اللہ تعالیٰ اس پر قیامت تک لعنت کرنے والوں کی لعنت نازل فرمائے۔[3]
زید بن علی رحمہ اللہ :
ابن عساکر نے اپنی سند سے سدی سے روایت کی ہے کہ میں آپ (یعنی زید رحمہ اللہ ) کے پاس آیا اس وقت آپ کوفہ کے محلوں میں سے ایک محلے بارق میں تھے، میں نے عرض کیا آپ ہمارے سردار اور ہمارے حاکم ہیں ، آپ ابوبکر و عمر کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ فرمایا: ان دونوں سے ولاء و محبت رکھو اور فرماتے تھے کہ ابوبکر و عمر اور عثمان سے براء ت علی سے براء ت ہے اور علی سے براء ت ابوبکر و عمر اور عثمان سے براء ت ہے۔[4] (مزید تفصیل ملاحظہ ہو، سیرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ : ۵۱۰)
فتنہ قتل سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال
انس بن مالک رضی اللہ عنہ :
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: علی و عثمان رضی اللہ عنہما کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتی، تو انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگ جھوٹ کہتے ہیں ان دونوں کی محبت ہمارے دلوں میں ایک ساتھ جمع ہے۔[5]
[1] السنن؍ البیہقی (۲؍۴۲)
[2] فضائل الصحابۃ (۱؍۵۶۳) رقم (۷۴۶)
[3] العقیدۃ فی اہل البیت، ض (۲۳۴)، مروج الذہب؍ المسعودی (۳؍۶۴)
[4] العقیدۃ فی اہل البیت (۳۳۵)و تہذیب تاریخ دمشق ص (۶؍۱۲)
[5] تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍۲۵)، تہذیب التہذیب؍ ابن حجر (۷؍۱۴۱)