کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 50
شام ہمارے گھر تشریف لاتے، لیکن جب ہجرت کا الٰہی حکم آیا تو آپ دوپہر میں ہمارے یہاں تشریف لائے۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اس وقت آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اس وقت آپ کے آنے کا مطلب ہے کہ ضرور کوئی اہم بات واقع ہوئی ہے۔ آپ گھر میں تشریف لائے، ابوبکر رضی اللہ عنہ چارپائی سے ہٹ گئے اور آپ چارپائی پر جلوہ افروز ہوئے۔ اس وقت وہاں صرف میں اور میری ہمشیرہ اسماء تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہاں جو ہیں ان کو ذرا یہاں سے ہٹنے کو کہو۔‘‘
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں ، بات کیا ہے؟ یہاں تو صرف میری یہ دونوں بیٹیاں ہیں ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہجرت کا حکم آگیا۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: مجھے آپ کی رفاقت چاہیے؟
آپ نے فرمایا: تم بھی ہمارے ہی ساتھ چلو گے۔
یہ مژدہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے،(سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :) آج سے پہلے مجھے یہ خبر نہ تھی کہ کوئی خوشی میں بھی روتا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فوراً دو اونٹنیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کرتے ہوئے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آج ہی کے لیے یہ دو اونٹنیاں میں نے پال رکھی تھیں ۔ پھر بنو دیل بن بکر کے ایک فرد عبداللہ بن اریقط کو راستہ کی رہنمائی کے لیے اجرت پر رکھا جو مشرک تھا، اور یہ دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کر دیں تاکہ وقت مقررہ تک ان کی دیکھ بھال کرے۔[1]
صحیح بخاری میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو روایت ہجرت سے متعلق وارد ہے اس میں اہم تفاصیل آئی ہیں ۔ اس روایت میں یوں آیا ہے:
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: ہم دوپہر کی گرمی میں گھر کے اندر بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا: او دیکھو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک ڈھانکے ہوئے تشریف لا رہے ہیں ۔ یہ وقت آپ کی آمد کا نہ تھا۔
آپ نے پہنچ کر ابوبکر سے کہا: جو لوگ یہاں ہیں ان کو ذرا یہاں سے دور کریں ۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یہ آپ ہی کے گھر والے ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہاں سے نکل جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: مجھے بھی آپ کی رفاقت چاہیے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ضرور۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دو اونٹنیاں حاضر کیں ۔
[1] السیرۃ النبویۃ لابن کثیر: ۲/۲۳۳، ۲۳۴۔