کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 498
حیا نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بدر کے دن کفار قریش کے مقتولین کو کنویں میں ڈالنے کا حکم فرمایا تھا اور پھر ان کے اوپر مٹی ڈال دی تھی حالاں کہ وہ اللہ کی بدترین مخلوق تھے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے مقتولین کے لیے خندق کھودنے کا حکم فرمایا تھا اور وہ ان لوگوں میں بدترین لوگ تھے، جنھیں زمین میں دفن کیا گیا، مومن ہو یا کافر اس کو دفن کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ تو حیا مند انسان کے لیے کیسے جائز ہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ (جو امام وقت تھے) اور مدینہ میں موجود صحابہ کی طرف منسوب کرے کہ انہوں نے ایک میّت کو تین دن تک گھورے پر پھینکے رکھا دفن نہیں کیا۔[1] کسی انسان کی عقل میں جو رفض سے محفوظ ہو، یہ بات گھس نہیں سکتی کہ ان حضرات صحابہ نے تین دن تک اپنے امام کو بغیر دفن کے چھوڑے رکھا۔ باغی جو عثمان رضی اللہ عنہ کے محاصرہ قتل کے لیے آئے تھے ان کی قوت کچھ بھی رہی ہو کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی صفت بیان کی ہے اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہیں ڈرتے تھے، یہ روایتیں جنھوں نے اسلامی تاریخ کو مسخ کیا ہے روافض کی دسیسہ کاریوں کا نتیجہ ہیں ۔[2] ۴۔عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے محمد بن ابي بکر کي برا ء ت: …عثمان رضی اللہ عنہ کا قاتل ایک مصری شخص تھا روایات میں اس کا نام مذکور نہیں ۔ روایات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اصل میں سدوسی تھا، کالے رنگ کا تھا، کالے پن کی وجہ سے اس کا لقب جبلہ تھا نیز اس کو ’’الموت الاسود‘‘ (کالی موت) کا لقب بھی دیا گیا ہے اور محب الدین خطیب کی تحقیق یہ ہے کہ عبداللہ بن سبا قاتل تھا چنانچہ کہتے ہیں کہ یہ ثابت ہے کہ عبداللہ بن سبا فسطاط سے مدینہ آتے وقت مصری باغیوں کے ساتھ تھا۔ ہر کردار میں جو اس نے ادا کیا اس کی یہی کوشش رہی کہ وہ پردہ کے پیچھے رہے، عین ممکن ہے ’’الموت الاسود‘‘ اسی کا اسم مستعار ہو اور اس کے ذریعے سے اپنی طرف اشارہ مقصود ہو تاکہ اسلام کو منہدم کرنے کے لیے اپنی دسیسہ کاریوں کو بروئے کار لا سکے۔[3] اور اس تحقیق پر یہ شہادت ہے کہ عبداللہ بن سبا کالا تھا، علی رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ آپ نے اس کو خبث اور کالے پن سے متصف کیا چنانچہ آپ نے اس سے متعلق فرمایا: ’’الخبیث الاسود‘‘ (خبیث کالا) [4] عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے سلسلہ میں محمد بن ابی بکر کو متہم کرنا باطل ہے کیوں کہ اس سلسلہ میں روایات ضعیف ہیں اور متن شاذ ہیں کیوں کہ صحیح روایات کے خلاف ہیں اس لیے کہ صحیح روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ کا قاتل ایک مصری شخص ہے۔[5] اور ڈاکٹر یحییٰ الیحیٰی نے کئی اسباب ذکر کیے ہیں جس سے عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے
[1] الفصل (۴؍۲۳۹۔۲۴۰) [2] عقیدۃ اہل السنۃ (۳؍۱۰۹۱) [3] العواصم من القواصم بحوالہ فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۲۰۷) [4] لسان المیزان (۳؍۲۹۰) [5] فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۲۰۹)