کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 497
اسباب سے یہ راجح قرار پاتا ہے:
٭ آپ کے سن ولادت کا سن شہادت سے مقارنہ کیا جائے تو اسی قول کی تائید ہوتی ہے۔ آپ کی ولادت عام الفیل کے چھ سال بعد ہوئی اور شہادت ۳۵ھ میں ہوئی آپ کی ولادت کی تاریخ کی شہادت کی تاریخ سے تفریق کرنے سے شہادت کے وقت آپ کی عمر کا پتہ چل جاتا ہے کہ ۸۲سال تھی۔
٭ یہی جمہور کا قول ہے اور اس کے خلاف کو قوی ترین قول نہیں ہے۔[1]
۳۔نماز جنازہ اور تدفین: …صحابہ کی ایک جماعت نے قتل ہی کے روز آپ کو غسل و کفن دیا اور آپ کا جنازہ اٹھایا، ان میں سے حکیم بن حزام، حویطب بن عبدالعزیٰ، ابو الجہم بن حذیفہ، نیار بن مسلم اسلمی، جبیر بن مطعم، زبیر بن عوام، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم تھے اور آپ کے اصحاب و خواتین کی ایک جماعت تھی ان میں سے آپ کی دو بیویاں نائلہ اور ام البنین بنت عتبہ بن حصین تھیں اور بچے تھے۔ آپ کی نماز جنازہ جبیر بن مطعم نے پڑھائی ہے۔ زبیر بن عوام، حکیم بن حزام، مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم کا نام بھی اس سلسلہ میں مروی ہے۔[2] لیکن میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ آپ کی نماز جنازہ زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور آپ کو دفن کیا، عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی وصیت کی تھی۔[3]
آپ کو رات میں دفن کیا گیا۔ ابن سعد اور ذہبی کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے، ان دونوں نے ذکر کیا ہے کہ آپ کو مغرب و عشاء کے مابین دفن کیا گیا۔[4] رہی طبرانی کی روایت جس میں عبدالملک بن الماجشون کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک کو کہتے ہوئے سنا کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تو تین دن تک بنو فلاں کے گھورے پر پڑے رہے۔[5] تو یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف اور متن کے اعتبار سے باطل ہے اس کی سند میں دو علّتیں ہیں :
٭ عبدالملک بن ماجشون ضعیف ہے یہ امام مالک رحمہ اللہ سے منا کیر روایت کرتا ہے۔
٭ یہ روایت مرسل ہے کیوں کہ امام مالک رحمہ اللہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت موجود نہ تھے کیوں کہ آپ کی ولادت ۹۳ھ میں ہوئی ہے۔[6]
رہا اس روایت کا متن، تو وہ باطل ہے اس سلسلہ میں ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ تین دن تک گھورے پر پڑے رہے تو یہ محض جھوٹ ہے، موضوع اور بہتان ہے، یہ ان لوگوں کی پیداوار ہے جن کو
[1] فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۲۰۴)
[2] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۱۹۹)
[3] الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد (۱؍۵۵۵)، اس کے رجال ثقات ہیں لیکن سند منقطع ہے۔
[4] الطبقات (۳؍۷۸)، تاریخ الاسلام (عہد الخلفاء) (۱؍۴۸)
[5] المعجم الکبیر (۱؍۷۸)، استشہاد عثمان ص (۱۹۴)
[6] تہذیب التہذیب؍ ابن حجر (۶؍۴۰۸)