کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 492
أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٠٣﴾ (آل عمران: ۱۰۳) ’’اور اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمھیں بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘ پھر آپ نے مسلمانوں سے فرمایا: مدینہ والو! میں تمھیں الوداع کہتے ہوئے اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ میرے بعد تم پر اچھی خلافت لائے۔ اللہ کی قسم! آج کے بعد میں کسی کے پاس نہیں جاؤں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں اپنا فیصلہ پورا کر دے۔ میں ان خوارج (باغیوں ) کو اپنے دروازے کے پیچھے چھوڑ دوں گا، ان کا کوئی مطالبہ پورا نہیں کروں گا کہ وہ لوگ اسے تمہارے خلاف دین یا دنیا میں حجت بنا لیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہی اس سلسلہ میں جو پسند کرے گا کرے گا۔ ‘‘ پھر آپ نے مدینہ والوں کو اپنے گھروں کو واپس ہو جانے کا حکم دے دیا اور قسم دلائی، لوگ لوٹ گئے، حسن، محمد اور ابن زبیر اور ان جیسے نوجوان رہ گئے اور اپنے آباء کے حکم سے عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر بیٹھ کر پہرہ دینے لگے اور بہت سے لوگ ان کے ساتھ مل گئے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے گھر کو لازم پکڑ لیا یہاں تک کہ موت کا وقت آگیا۔[1] شہادت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ : ۱۔محاصرہ کا آخري دن اور خواب: …محاصرہ کے آخری دن جس دن آپ کا قتل ہوا آپ اس رات سوئے اور صبح لوگوں سے بیان کرنے لگے کہ یہ لوگ آج مجھے قتل کر دیں گے۔[2] پھر آپ نے فرمایا: میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ کے ساتھ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عثمان! ہمارے ساتھ افطاری کرنا۔ آپ نے صبح روزہ رکھا اور پھر اسی دن آپ قتل کر دیے گئے۔[3] ۲۔قتل کي تفصیلات: …باغیوں نے گھر پر دھاوا بول دیا، ان کے مقابلہ میں حسن بن علی، عبداللہ بن
[1] تاریخ الطبری (۵؍۳۹۹۔۴۰۰) [2] الطبقات؍ ابن سعد (۳؍۷۵)، فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۱۷۲) [3] الطبقات (۳؍۷۵) یہ حسن لغیرہ ہے۔ فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۱۷۵)