کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 490
مطہراتؓ کو یہ پیغام بھیجا۔ سب سے پہلے علی اور ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اس پر لبیک کہا۔[1] ۲۔ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا : ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا نے بھی وہی کیا جو ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کیا چنانچہ کنانہ بن عدی العبشمی سے روایت ہے کہ میں ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو لے کر جا رہا تھا تاکہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے دفاع کریں ، راستے میں اشترنخعی ملا، اس نے آپ کے خچر کے چہرے پر ضرب لگائی اور وہ بدک پڑا اور ام المومنین گرنے لگیں ۔ ام المومنین نے فرمایا: مجھے چھوڑو یہ مجھے رسوا نہیں کر سکتا۔ پھر آپ نے اپنے گھر سے عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر پر ایک لکڑی رکھ دی اوراس کے ذریعے سے کھانا اور پانی پہنچاتی رہیں ۔[2] ۳۔ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا : ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جو حادثہ پیش آیا اس کا لوگوں پر بڑا گہرا اثر ہوا چنانچہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا باغیوں پر غیظ و غضب میں بھری ہوئی مدینہ سے نکل پڑیں ، اس موقع پر مروان بن الحکم رضی اللہ عنہ پہنچے اور عرض کیا ام المومنین! اگر آپ مدینہ میں رہتیں تو لوگ ان (عثمان رضی اللہ عنہ ) کا خیال رکھتے۔ فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ میرے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو ام حبیبہ کے ساتھ کیا گیا ہے پھر مجھے ان سے بچانے والا کوئی نہ ہو؟ نہیں اللہ کی قسم! میں یہ عار برداشت نہیں کر سکتی۔[3] میں نہیں جانتی کہ ان لوگوں کا معاملہ کہاں تک پہنچتا ہے۔[4] اور آپ نے یہ سمجھا کہ ان کے مدینہ سے چلے جانے سے باغیوں کا یہ مجمع چھٹ جائے گا جیسا کہ آگے آنے والی روایت سے واضح ہوتا ہے۔ امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے مدینہ سے بھاگنے کے لیے حج کی تیاری کی لیکن امہات المومنین کا مدینہ سے نکلنا صرف فتنہ کے ملابسات سے بچنا اور محض بھاگنا نہ تھا بلکہ عثمان رضی اللہ عنہ کو ان بلوائیوں کے ہاتھوں سے بچانے کی ایک کوشش تھی، انہی بلوائیوں میں سے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی محمد بن ابی بکر بھی تھے، ام المومنین نے بڑی کوشش کی کہ وہ اس کو بھی اپنے ساتھ حج پر لے جائیں ، لیکن ہر چند کوشش کے باوجود اس نے انکار کیا۔ ام المومنین کی یہ کوشش اور محمد بن ابی بکر کا انکار ملفت للنظر تھا کہ حنظلہ بن ربیع الکاتب رضی اللہ عنہ [5] کو ام المومنین کے ساتھ جانے سے محمد کے انکار سے حیرانی ہوئی اور آپ نے اس انکار اور باغیوں کی متابعت کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے فرمایا: اے محمد! تجھ کو ام المومنین بلا رہی ہیں اور تو ان کی بات نہیں مانتا اور یہ عرب
[1] دورالمرأۃ السیاسی؍ أسماء محمد ص (۳۴۰) [2] سیر اعلام النبلاء (۲؍۲۳۷)، الطبقات؍ ابن سعد (۸؍۱۲۸) [3] ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس تعبیر سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ باغیوں نے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جو گستاخی کی تھی وہ انتہائی المناک تھی۔ [4] تاریخ الطبری (۵؍۴۰۱) [5] یہ حنظلہ بن ربیع تمیمی رضی اللہ عنہ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب تھے وحی لکھا کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کا نام الکاتب پڑ گیا۔