کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 488
نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرے بعد فتنے اور ناگفتہ بہ امور رونما ہوں گے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ اس سے نجات کی جگہ کہاں ہو گی؟ فرمایا: امین اور اس کی جماعت کے ساتھ۔ پھر آپ نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ فرمایا۔ یہ سن کر لوگ کھڑے ہوئے اور عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اب ہمیں بصیرت حاصل ہو گئی، ہمیں آپ ان باغیوں سے جہاد کی اجازت دیں ؟ آپ نے فرمایا: میں اس کو تاکید کرتا ہوں جس پر میری اطاعت فرض ہے کہ وہ قتال نہ کرے۔[1] ۳۔مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ : سیّدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ محاصرہ کے دوران عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا: آپ امام عام ہیں ، اور اس وقت آپ کی جو صورت حال ہے وہ سبھی دیکھ رہے ہیں اس لیے میں آپ کے سامنے تین پیش کش رکھتا ہوں ، آپ ان میں سے کوئی ایک قبول فرما لیں : آپ نکلیں اور ان سے قتال کریں ، آپ کے ساتھ افراد و قوت موجود ہے، آپ حق پر ہیں اور یہ لوگ باطل پر ہیں ، یا پھر اس دروازے کے علاوہ جس پر باغی کھڑے ہیں ، دوسرا دروازہ کھول کر سواری پر سوار ہو کر مکہ چلے جائیں وہاں یہ لوگ آپ کا خون حلال نہ کر سکیں گے، یا پھر شام چلے جائیں وہاں شامی ہیں وہاں معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ یہ پیش کش سن کر فرمایا: تمہاری پہلی پیش کش کہ میں نکل کر ان سے قتال کروں ، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی امت میں سب سے پہلا خون بہانے والا نہیں ہو سکتا۔ رہی دوسری پیش کش کہ میں مکہ چلا جاؤں اور اس طرح وہ میرا خون حلال نہ کر سکیں گے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا کہ قریش کا ایک شخص مکہ میں الحاد کرے گا اس پر دنیا کا آدھا عذاب ہو گا، میں وہ شخص ہونا نہیں چاہتا۔ اور رہی تمہاری تیسری پیش کش کہ میں شام چلا جاؤں وہاں شامی ہیں اور وہاں معاویہ ہیں تو میں دار ہجرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس کو چھوڑ نہیں سکتا۔[2] ۴۔حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما : حسن بن علی رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور عرض کیا: کیا میں اپنی تلوار سونت لوں ؟ فرمایا: نہیں ، اگر تم نے ایسا کیا تو میں اللہ کے حضور تمہارے خون سے اپنی براء ت کا اظہار کرتا ہوں ۔ تم اپنی تلوار میان میں ڈالو اور اپنے والد کے پاس چلے جاؤ۔[3] ۵۔ عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما : جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا کہ سنگین صورت حال پیدا ہو گئی ہے اور بغاوت کا سیلاب حد سے تجاوز کر
[1] فضائل الصحابۃ (۱؍۵۱۱۔۵۱۲) اسنادہ صحیح۔ [2] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۱۱) [3] فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۱۶۲) المصنف؍ ابن ابی شیبۃ (۱۵؍۲۲۴)