کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 486
پڑھائی، اور خطبہ کے دوران عثمان رضی اللہ عنہ کی تنقیص و گستاخی کی، پھر میں عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس واپس گیا، اور جو کچھ اس نے خطبہ میں کہا تھا اس سے مطلع کیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم ابن عدیس نے جھوٹ کہا اگر اس نے ایسی باتیں نہ کی ہوتیں تو میں بیان نہ کرتا۔ میں اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھا فرد ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی میری زوجیت میں دی، پھر جب اس کا انتقال ہو گیا تو دوسری بیٹی میری زوجیت میں دے دی۔ میں نے نہ تو جاہلیت میں اور نہ اسلام میں کبھی زنا اور چوری کا ارتکاب کیا، اور جب سے اسلام قبول کیا ہے نہ کبھی گانا گایا، نہ اس کی تمنا و خواہش کی، اور جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ہے اپنے ہاتھ سے کبھی اپنی شرمگاہ کو نہیں چھوا۔ اور جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتا رہا ہوں الا یہ کہ کسی جمعہ کو غلام نہ ملے، تو دوسرے جمعہ کو اس کے عوض دو غلام آزاد کرتا ہوں ۔[1] جب عثمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ باغی آپ کے قتل پر مصر ہیں تو آپ نے انہیں اس سے روکا، اور اس فعل بد کے انجام سے خبردار کیا، اور روشن دان سے ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: لوگو! مجھے قتل نہ کرو، مجھے رضا مند کر لو، اللہ کی قسم اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو کبھی ایک ساتھ مل کر قتال نہ کر سکو گے، اور نہ کبھی دشمن سے جہاد کر سکو گے اور تم آپس میں اختلاف کر کے اس طرح گتھم گتھا ہو گے، پھر آپ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈال کر بتایا۔[2] ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: لوگو! مجھے قتل نہ کرو میں تمہارا والی اور مسلمان بھائی ہوں ۔ اللہ کی قسم میں اپنی طاقت بھر اصلاح و بھلائی ہی چاہتا ہوں ، خواہ صحیح کیا ہوں یا مجھ سے غلطی ہوئی ہو، اگر تم لوگوں نے مجھے قتل کر دیا تو کبھی ایک ساتھ مل کر نماز نہ پڑھ سکو گے، اور نہ مل کر دشمن سے جنگ کر سکو گے، اور مال غنیمت تمہارے درمیان تقسیم نہ ہو گا۔[3] نیز فرمایا: اللہ کی قسم! اگر ان لوگوں نے مجھے قتل کر دیا تو میرے بعد آپس میں کبھی پیار و محبت سے نہ رہ سکیں گے اور میرے بعد کبھی دشمن سے قتال نہ کر سکیں گے۔[4] اور وہی ہوا جس سے آپ نے خبردار کیا تھا، آپ کے قتل کے بعد وہ سب کچھ ہوا جو آپ نے فرمایا تھا، اس سلسلہ میں حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ کی قسم اگر لوگ ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں تو ان کے دل مختلف ہوتے ہیں ۔[5]
[1] المعرفۃ و التاریخ (۲؍۴۸۸)، خلافۃ عثمان بن عفان؍ السلمی ص (۹۱) [2] الطبقات (۳؍۷۱) تاریخ ابن خیاط ص (۱۷۱) اسنادہ صحیح [3] الطبقات (۳؍۶۷۔۶۸) فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۱۵۶) [4] تاریخ ابن خیاط ص (۱۷۱) فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۱۵۷) اسنادہ حسن۔ [5] فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۱۵۷)