کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 485
اپنے میں سے بھیج دیا جس کا نام صعصعہ بن صوحان تھا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ وہ ان کے خلاف جو ان کے اعتراضات ہیں وہ پیش کرے۔[1] ۷۔ عثمان رضی اللہ عنہ کا لوگوں کو اپنے فضائل یاد دلانا: ان لوگوں کی تردید کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اپنے مقام و مرتبہ اور بعض فضائل یاد دلائے۔ پس جو لوگ ان فضائل کو جانتے تھے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا، ان سے اپیل کی کہ وہ دیگر لوگوں سے اس کو بیان کریں ، چنانچہ آپ نے فرمایا: میں ان حضرات کو اللہ کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں جو حرا کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے، اور جب پہاڑ ہلنے لگا تھا تو کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم سے اس کو مارتے ہوئے نہیں فرمایا تھا: اے حرا تو ٹھہر جا! تیرے اوپر یا تو نبی ہے یا صدیق یا شہید، اور میں اس وقت آپ کے ساتھ تھا؟ تو لوگوں نے اس کی شہادت دی۔ پھر فرمایا: میں ان حضرات کو اللہ کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں جو بیعت رضوان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے مشرکین کے پاس بھیج دیا، اور صحابہ سے بیعت لی تو آپ نے اپنے ایک ہاتھ کو میرا ہاتھقرار نہیں دیا کہ یہ میرا ہاتھ ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے، اور پھر میری طرف سے بیعت کی؟ تو لوگوں نے اس کی بھی شہادت دی۔ پھر فرمایا: میں ان حضرات کو اللہ کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا: جو اس گھر کو مسجد میں شامل کر کے اس کو وسیع کر دے اللہ اس کے عوض اس کو جنت میں گھر دے گا تو میں نے اس گھر کو اپنے مال سے خرید کر مسجد کی توسیع کر دی۔ لوگوں نے اس کی بھی شہادت دی۔ پھر فرمایا: میں ان حضرات کو اللہ کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، کیا بئر رومہ ایک یہودی کی ملکیت نہ تھا، جو اس کا پانی بیچتا تھا؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو اس کنویں کو خرید کر اس کا پانی ہر راہ چلنے والے کے لیے عام کر دے؟ تو میں نے اپنے مال سے اس کو خرید کر اس کو عام کر دیا؟ لوگوں نے اس کی بھی شہادت دی۔[2] ابو ثور فہمی سے روایت ہے کہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اور ان کے پاس رہا، پھر وہاں سے نکلا تو دیکھا مصری لوٹ رہے ہیں ، پھر میں عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس واپس گیا اور ان کو اس کی خبر دی۔ آپ نے دریافت کیا: تم نے ان لوگوں کو کس حالت میں دیکھا؟ میں نے عرض کیا: میں نے ان کے چہروں میں برائی اور بدنیتی محسوس کیا، اور ابن عدیس بلوائیوں کا سرغنہ ہے، پھر ابن عدیس منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھا، اور خطبہ دیا اور لوگوں کو جمعہ کی نماز
[1] فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۱۵۰) [2] المسند (۱؍۵۹) علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ نے کہا اس کی سند صحیح ہے، ص (۴۲۰)