کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 484
اللہ تعالیٰ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے راضی ہو آپ کس قدر دور اندیش تھے۔ آپ نہیں چاہتے تھے کہ امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ ، خلفاء کے لیے سنت سیئہ جاری کریں ۔ عثمان رضی اللہ عنہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے تھے۔ اگر امیر المومنین ان سبائی باغیوں کے مطالبہ پر خلافت سے تنازل اختیار کر لیتے تو خلفاء اقتدار پسندوں اور خود غرضوں کے ہاتھ میں کھلونا بن جاتے، اور ایسی صورت میں خلیفہ کا وقار مجروح ہو جاتا، اور لوگوں کے دلوں میں اس کی ہیبت ختم ہو جاتی۔ امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشورہ سے اپنے بعد آنے والے خلفاء کے لیے سنت حسنہ جاری کر دی۔ صبر و احتساب سے کام لیا، نہ تو خلافت سے دست بردار ہوئے اور نہ مسلمانوں کا خون بہایا۔[1]
۶۔ باغیوں کا آپ کو قتل کی دھمکی:
عثمان رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں تھے اور باغی آپ کے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ ایک روز آپ اپنے گھر کے دروازے کے پاس آئے تو آپ نے باغیوں کی طرف سے قتل کی دھمکی سنی، آپ دروازے کے پاس سے ہٹ کر اندر گھر میں ان لوگوں کے پاس گئے جو آپ کے ساتھ گھر میں تھے۔ اس وقت آپ کا رنگ بدلا ہوا تھا فرمایا: یہ لوگ ابھی مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں ، لوگوں نے عرض کیا: امیر المومنین اللہ آپ کے لیے کافی ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ لوگ مجھے کس بنیاد پر قتل کریں گے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
((لایحل دم امریٔ مسلم الا فی احدی ثلاث: رجل کفر بعد ایمانہ ، او زنی بعد إحصانہ ، اوقتل نفسا بغیر نفس۔))
’’کسی مسلمان کا خون حلال نہیں الا یہ کہ تین باتوں میں سے کوئی ایک بات پائی جائے۔ ایمان کے بعد کافر ہو جائے یا شادی کے بعد زنا کر لے یا کسی جان کو بغیر بدلہ کے قتل کیا ہو۔‘‘
اللہ کی قسم میں کبھی زنا کے قریب نہیں گیا، نہ جاہلیت میں اور نہ حالت اسلام میں ، اور جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی ہے کبھی یہ تمنا نہیں کی کہ میرے لیے میرے دین کا بدل ہو، اور نہ کسی کو میں نے قتل کیا ہے، تو آخر یہ لوگ کیوں مجھے قتل کریں گے؟[2]
پھر آپ محاصرہ کرنے والے باغیوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور ان کے جوش بغاوت کو ٹھنڈا کرنا چاہا اور امام وقت کے خلاف بغاوت سے ان کا رخ موڑنا چاہا، اس سلسلہ میں آپ نے ان کے اعتراضات کی تردید اور حقائق کا اظہار کرنا چاہا، شاید دھوکا کھائے ہوئے لوگوں کو ہوش آجائے اور رشد و ہدایت کی طرف پلٹ آئیں ۔ آپ نے ان سے کہا کہ ایک شخص کو میرے پاس بھیجو میں اس سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ، ان باغیوں نے ایک نوجوان کو
[1] الخلفاء الراشدون؍ الخالدی ص (۱۷۹)
[2] المسند (۱؍۶۳) احمد شاکر نے کہا: اس کی سند صحیح ہے۔ ص (۴۵۲)