کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 483
پھر باغیوں کی دوبارہ واپسی ہوئی، محاصرہ کے شدت اختیار کرنے سے قبل عثمان رضی اللہ عنہ نماز کے لیے نکل سکتے تھے، اور کوئی بھی ان کے پاس آسکتا تھا، لیکن پھر آپ کو فرض نماز کے لیے بھی نکلنے سے روک دیا گیا،[1] اور باغی لیڈران کا ایک شخص لوگوں کو نماز پڑھانے لگا، عبیداللہ بن عدی بن خیار نے اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں حرج محسوس کیا، انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے اس سلسلہ میں مشورہ کیا تو آپ نے اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا مشورہ دیا، اور فرمایا: نماز سب سے بہترین چیز ہے جسے لوگ کرتے ہیں جب لوگ اچھائی کریں تو تم بھی ان کے ساتھ اچھائی کرو اور جب لوگ برائی کریں تو تم ان کی برائی سے بچو۔[2]
۴۔ امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ اور محاصرین کے درمیان مذاکرات:
جب مکمل محاصرہ ہو گیا اور باغیوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کو گھیر لیا تو آپ سے مطالبہ کیا کہ خلافت سے معزول ہو جائیں ورنہ وہ انہیں قتل کر دیں گے۔[3]عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کے اس مطالبہ کو رد کرتے ہوئے معزولی سے انکار کر دیا، اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جو لباس مجھے پہنایا ہے اس کو اتار نہیں سکتا۔ [4]اس سے آپ کا اشارہ اس وصیت کی طرف تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کی تھی۔ صورت حال کے پیش نظر مختصر سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی رائے اس کے برعکس تھی جب کہ بعض نے آپ کو معزولی کا مشورہ دیا، انہی میں سے مغیرہ بن اخنس رضی اللہ عنہ تھے لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو رد کر دیا۔[5]
۵۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ، عثمان رضی اللہ عنہ کو منصب خلافت سے عدم تنازل پر ابھارتے ہیں :
محاصرہ کے دوران میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: دیکھ رہے ہو یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں ؟ یہ لوگ کہہ رہے ہیں خلافت سے دست بردار ہو جاؤ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے آپ سے کہا: اگر آپ خلافت سے دست بردار ہو جائیں تو کیا آپ ہمیشہ ہمیش دنیا میں زندہ رہیں گے؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر آپ خلافت سے دست بردار نہ ہوں تو کیا یہ لوگ آپ کو قتل سے زیادہ کچھ کر سکتے ہیں ؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: کیا یہ لوگ آپ کے لیے جنت یا جہنم کے مالک ہیں ؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو آپ اس قمیص کو نہ اتاریں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہنایا ہے، ورنہ یہ سنت قرار پا جائے گی کہ جب بھی لوگ اپنے خلیفہ یا امام کو ناپسند کریں گے اس کو قتل کر دیں گے۔[6]
[1] تاریخ دمشق ترجمۃ عثمان ص (۲۴۱۔۳۴۲) اسنادہ حسن
[2] البخاری ، کتاب الصلاۃ ص (۱۹۲)
[3] الطبقات؍ ابن سعد (۳؍۶۶)، تاریخ خلیفۃ بن الخیاط ص (۱۷۱)
[4] التمہید ص (۴۶۔۴۷)
[5] فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۱۴۷)
[6] فضائل الصحابۃ (۱؍۴۷۳) اسنادہ صحیح