کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 482
پارہ پارہ نہیں کریں گے اور نہ مسلمانوں کی جماعت سے اختلاف کریں گے۔ پھر یہ سب راضی خوشی واپس ہو گئے۔[1] ۲۔ مصر کے باغیوں سے مذاکرات کے لیے عثمان رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ کو روانہ کرتے ہیں : یہ باغی شہادت سے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل ذی مروہ میں اترے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے شخص کو ان سے مذاکرات کے لیے بھیجا، اس دوسرے شخص کا نام روایات میں مذکور نہیں ۔ علی رضی اللہ عنہ ان سے جا کر ملے اور ان سے کہا: اللہ کی کتاب کے مطابق تمہارے مطالبات پورے کیے جائیں گے بشرطیکہ اپنے تمام اعتراضات سے باز آجاؤ، انہوں نے اس سے موافقت کی۔[2] اور ایک روایت میں ہے کہ دو یا تین مرتبہ طرفین سے سخت کلامی ہوئی اور پھر ان لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور امیر المومنین کے سفیر، تمہارے اوپر اللہ کی کتاب پیش کر رہے ہیں قبول کر لو چنانچہ انہوں نے قبول کر لیا۔[3]پانچ نکتوں پر مصالحت ہو گئی۔ جلا وطن کو واپس کیا جائے گا، محروم کو عطا کیا جائے گا، فے اور مال غنیمت کو تقسیم کیا جائے گا، تقسیم میں عدل و انصاف کیا جائے گا، امانت و قوت سے متصف لوگوں کو عامل و افسر بنایا جائے گا۔ اس کو ایک دستاویز میں تحریر کیا گیا، اور یہ شرط رکھی گئی کہ عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو بصرہ پر دوبارہ گورنر مقرر کیا جائے اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو کوفہ پر بحیثیت گورنر باقی رکھا جائے۔[4] اس طرح عثمان رضی اللہ عنہ نے ہر وفد سے الگ الگ مصالحت کی، اور پھر یہ سب اپنے اپنے وطن کو واپس ہو گئے۔[5] ۳۔ بلوائیوں کے پیچھے نماز سے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ کی رائے: صحیح روایات کے اندر، محاصرہ کے آغاز کی کیفیت اور اس کے وقوع کی تفصیل مذکور نہیں ہے۔ شاید محاصرہ سے قبل کے واقعات سے محاصرہ کے آغاز پر روشنی پڑتی ہو جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک دن عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے، دوران خطبہ میں اعین[6] نامی ایک شخص نے آپ کی بات کاٹتے ہوئے کہا: اے نعثل[7] تم نے تو دین کو بدل ڈالا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا یہ اعین ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’بلکہ تو نے اے غلام!‘‘ لوگ اس کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھے لیکن بنو لیث کے ایک شخص نے اس کو ان لوگوں سے بچا کر گھر میں داخل کر دیا۔[8]
[1] فتنۃ مقتل عثمان ؍د۔محمد الغبان (۱؍۱۲۸) [2] تاریخ دمشق ترجمۃ عثمان ص (۳۲۸)، تاریخ خلیفۃ ص (۱۶۹۔۱۷۰) [3] فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۱۲۹) [4] ایضاً [5] ایضاً [6] اس کا پورا نام أعین بن ضبعیۃ بن ناجیۃ بن غفال التمیمی الحنظلی الذرمی ہے۔ [7] عثمان رضی اللہ عنہ کی تنقیص کے لیے سبائی باغیوں نے آپ کو یہ لقب دے رکھا تھا۔ نعثل کے معنی ’’بے وقوف بڈھا‘‘ کے ہیں ۔ [8] فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۱۴۳)، تاریخ دمشق ترجمۃ عثمان ص (۲۴۷) اسنادہ حسن