کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 479
ساتھ اعتراضات کو بیان کیا، لیکن فسادیوں کو ہدایت اور راست مطلوب نہیں تھی، آپ کا ان کے ساتھ مناقشہ اور مناظرہ، ایک مخلص انسان کا اس شخص کے ساتھ مناظرہ و مناقشہ تھا جو اس کے خلاف مصیبت برپا کرنا چاہتا ہو اور اس کی لغزشوں کو لے کر اپنے مقاصد پورا کرنا چاہتا ہو، اور لوگوں کے دلوں میں اس کے خلاف اعراض برپا کرنا چاہتا ہو، پس جس کی یہ حالت ہو اس کو حجت و برہان مطمئن نہیں کر سکتی اور دلیل سے اس کو ہدایت نہیں مل سکتی، اور اللہ جس کو گمراہی پر لگا دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔[1] آپ کی گفتگو اور توضیح، فتنہ کے لیڈران نے سنی جو منبر کے بغل میں تھے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور مسلمانوں نے سنی۔ مسلمان، عثمان رضی اللہ عنہ کی گفتگو و توضیح سے متاثر ہوئے اور آپ کی باتوں کی تصدیق کی اور ان کے اندر آپ کی محبت میں اضافہ ہوا مگر سبائی جو فتنہ و افتراق کے داعی تھے اس سے متاثر نہ ہوئے، اور اپنے موقف سے باز نہ آئے کیونکہ وہ حق کے متلاشی اور خیر کے خوگر نہ تھے، ان کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کے لیے سازش اور فتنہ برپا کرنا تھا۔ صحابہ کرام اور مسلمانوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو ان سبائیوں اور قائدین فتنہ کو قتل کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ ان کی کذب بیانی و جعل سازی اور بغض و دشمنی ظاہر ہو چکی تھی۔ بلکہ ان کے قتل پر لوگوں نے اصرار کیا تاکہ ان کے شر سے مسلمانوں کو نجات مل جائے، اور عالم اسلام میں استقرار اور امن و امان قائم ہو اور اس فتنہ کا خاتمہ ہو جائے جسے یہ لوگ اور ان کے پیروکار برپا کر رہے تھے۔ لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کی رائے دوسری تھی، آپ دوسرا حل چاہتے تھے، اسی لیے آپ نے ان کو چھوڑ دیا اور ان کے عدم قتل کو ترجیح دی اور مصر اور کوفہ و بصرہ سے آئے ہوئے سبائیوں کے خلاف آپ نے کوئی کارروائی نہیں کی، حالاں کہ آپ ان کے منصوبوں اور ارادوں سے بخوبی واقف تھے اور انہیں مدینہ سے اپنے اپنے شہروں کو جانے دیا۔[2] ۳۔ باغیوں کے بعض مطالبات کو پورا کرنا: یقینا بعض والیان کی معزولی اور بعض کی تولیت و تقرری سے متعلق باغیوں کے بعض مطالبات کو پورا کرنا حق و عدل کے قیام اور صورت حال کے علاج کے لیے کافی تھا بشرطیکہ معاملات اپنی طبعی حالت میں ہوتے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان مطالبات اور شکایات سے مقصود جاہلی عصبیت بھڑکانا تھا تاکہ مسلمانوں کے درمیان فتنہ برپا کیا جائے اور ان کی وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے، چنانچہ وہی ہوا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سلسلہ میں خبر دی تھی۔[3] ۴۔ ربانی علماء سے مشورہ کرنا: آپ علماء صحابہ، علی، طلحہ، زبیر، محمد بن مسلمہ، ابن عمر، عبداللہ بن سلام وغیرہم رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرتے، علماء
[1] تاریخ الجدل؍ محمد ابوزہرہ ص (۹۸۔۹۹) [2] الخلفاء الراشدون؍ الخالدی ص (۱۵۸۔۱۵۹) [3] خلافۃ عثمان؍ السلمی ص (۷۸)