کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 478
ہیں کہ آپ ان کو خمس کا خمس دیں حالاں کہ انہیں اعتراض اور انکار کا کوئی حق نہیں ، تو میں نے عبداللہ بن سعد سے اس کو واپس لے لیا اور اسے مجاہدین کے لشکر پر تقسیم کر دیا، اس میں سے ابن سعد نے کچھ بھی نہیں لیا، کیا بات ایسی نہیں ہے؟ صحابہ نے کہا: ہاں ضرور بات ایسی ہی ہے۔
٭ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ میں اپنے گھر والوں کو ترجیح دیتا ہوں اور انہیں عطا کرتا ہوں ۔ پس واضح ہو کہ ان کی محبت مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کرتی کہ میں دوسروں پر ظلم و زیادتی پر اتر آؤں ، بلکہ ان پر حقوق عائد کرتا ہوں ، اور ان سے حقوق وصول کرتا ہوں ، اور رہا معاملہ ان کو عطا کرنے کا تو میں انہیں اپنے مال خاص سے عطا کرتا ہوں ، مسلمانوں کے مال میں سے نہیں دیتا ہوں ، میں تو مسلمانوں کا مال اپنی ذات کے لیے بھی حلال نہیں سمجھتا اور نہ کسی دوسرے کے لیے۔ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے دور میں اپنے مال خاص سے بڑے بڑے قیمتی و مرغوب عطیے دیتا رہا ہوں ، جب کہ اس وقت مجھے مال کی طمع و لالچ تھی، کیا آج جب کہ میری عمر دراز ہو چکی ہے، اور عمر کی آخری منزل طے کر رہا ہوں اور اپنا سارا مال و متاع اپنے اہل و عیال اور اقرباء میں تقسیم کردیا ہے، الحاد پرست لوگ ایسی باتیں کر رہے ہیں ؟ میں نے صوبوں میں سے کسی صوبے سے کوئی مال نہیں وصول کیا ہے، بلکہ میں نے ان صوبوں کو مال واپس دیا ہے۔ مدینہ میں لوگ صرف مال غنیمت کا خمس بھیجتے رہے ہیں اور مسلمانوں نے ہی اس خمس کی تقسیم کی ذمہ داری سنبھالی ہے، اور اس کے مستحقین تک پہنچایا ہے۔ اللہ کی قسم ! اس خمس میں سے ایک پیسہ بھی میں نے نہیں لیا ہے۔ میں اپنے مال ہی سے کھاتا ہوں اور اپنے مال ہی سے اپنے اہل و عیال اور قرابت داروں کو دیتا ہوں ۔
٭ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ میں نے مفتوحہ زمینیں مخصوص لوگوں کو دی ہیں حالانکہ ان مفتوحہ زمینوں کو فتح کرنے میں مہاجرین و انصار وغیرہم مجاہدین شریک رہے ہیں ۔ لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ جب میں نے ان فاتحین کے درمیان مفتوحہ زمینوں کو تقسیم کیا تو ان میں کچھ لوگوں نے وہاں سکونت اختیار کر لی اور کچھ لوگ مدینہ اور اپنے دیگر مقامات کو واپس چلے آئے اور زمینیں باقی رکھیں یا بیچ ڈالیں اور اس کی قیمت لے لی۔
اس طرح عثمان رضی اللہ عنہ نے ان اہم اعتراضات کو پیش کیا جو ان کے خلاف اٹھائے گئے تھے، اور توضیح پیش کی اور صحیح صورت حال کو بیان کیا ۔[1]
آپ اس محکم دفاع میں جس کے ذریعے سے عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنا دفاع کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ گفتگو و مذاکرہ کیا اس میں ایک زہریلی تنقید ملاحظہ فرمائیں گے جو عثمان رضی اللہ عنہ پر کی جا رہی تھی۔ اور جو ناشائستہ باتیں سبائی پھیلا رہے تھے اور جن باطل و بے بنیاد باتوں کی ترویج کر رہے تھے آپ نے اختصار و اجمال کے
[1] العواصم من القواصم ص (۶۱۔۱۱۱) تاریخ الطبری (۵؍۳۵۵۔۳۵۶) الخلفاء الراشدون؍ الخالدی ص (۱۵۸) الفتنۃ؍ احمد عرموش (۱۰۔۱۴)