کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 477
میں نے مسلم فقراء کے جانوروں کو اس میں چرنے پر پابندی نہیں عائد کی ہے اور میں نے اپنے جانوروں کے لیے کوئی چراگاہ مخصوص نہیں کی ہے۔ جب میں نے زمام خلافت سنبھالی اس وقت میرے پاس سب سے زیادہ اونٹ اور بکریاں تھیں ، میں نے سب خرچ کر دیا اس وقت میرے پاس نہ کوئی بکری ہے نہ اونٹنی، صرف میرے پاس دو اونٹ ہیں جن کو حج کے لیے چھوڑ رکھا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ صحابہ نے کہا: ہاں ضرور بات ایسی ہی ہے۔ ٭ ان کا کہنا ہے کہ میں نے قرآن کا صرف ایک نسخہ باقی رکھا، باقی کو نذر آتش کر دیا، اور لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیا۔ خبردار قرآن اللہ کا کلام ہے وہ اللہ کے پاس سے نازل ہوا ہے، وہ ایک ہے، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ لوگوں کو ایک قرآن پر جمع کر دیا، انہیں اس کے بارے میں اختلاف کرنے سے روک دیا ہے، اور میں نے اپنے اس فعل میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فعل کی اتباع کی ہے جب کہ آپ نے قرآن جمع کرایا تھا، کیا بات ایسی نہیں ہے؟ صحابہ نے کہا، ضرور بات ایسی ہی ہے۔ ٭ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ میں نے حکم بن العاص کو مدینہ واپس بلا لیا ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طائف کی طرف جلا وطن کر دیا تھا۔ لیکن حکم بن العاص مکی ہیں ، وہ مدینہ کے رہنے والے نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مکہ سے طائف روانہ کیا تھا اور آپ نے ہی جب ان سے خوش ہو گئے تو مکہ واپس بلا لیا تھا کیا بات ایسی نہیں ہے؟ صحابہ نے کہا: ہاں ضرور بات ایسی ہی ہے۔ ٭ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ میں نے نوخیز عمروالوں کو عامل اور کم سن نوجوانوں کو والی مقرر کیا ہے، میں نے صرف فاضل باصلاحیت اور پسندیدہ لوگوں کو ہی والی مقرر کیا ہے، یہ لوگ انہی کی رعایا میں سے ہیں ، ان سے ان کے متعلق پوچھ لو، یاد رہے کہ مجھ سے پہلے والوں نے ان سے نوخیز اور کم سن لوگوں کو ولایت سونپی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زیدکو ولایت بخشی حالاں کہ وہ ان سے کم سن تھے جن کو میں نے والی مقرر کیا ہے۔ لوگوں نے اس سے سخت بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تھی جو لوگوں نے مجھ سے کہی ہے، کیا بات ایسی نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں ضرور بات ایسی ہی ہے، یقینا یہ لوگ لوگوں پر ایسا عیب لگاتے ہیں جس کی تفسیر و توضیح نہیں کرتے۔ ٭ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب میں نے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو مال فے دیا تو اس کو مال غنیمت کے خمس کا خمس دیا جس کی مقدار ایک لاکھ تھی، یہ اس وقت ہوا جب افریقہ (تونس) پر اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی، یہ اس کے جہاد کا بدلہ تھا۔ میں نے اس سے کہہ رکھا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ تیرے ہاتھوں پر افریقہ فتح فرمائے گا تو میں اس سے حاصل ہونے والے مال غنیمت کے خمس کا خمس تجھ کو دوں گا، اور مجھ سے قبل ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ایسا کر چکے ہیں ، اس کے باوجود جب مجاہدین کے لشکر نے مجھ سے کہا کہ ہم اس کو ناپسند کرتے