کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 47
جاہلی معاشرہ کی بنیاد ہل جاتی تھی، یہ اس کو منہدم کرنے کے لیے کسی زلزلہ سے کم نہ تھا۔ لیکن یہ نئی دعوت جس کی طرف نوجوان آگے بڑھے جو اپنے آباء و اجداد اور بڑوں کے رسم ورواج اور اکڑفوں کو چیلنج کر رہے تھے، یہ دعوت اس گئے گذرے حبشی غلام کے دل میں گھر کر گئی اور اس کو زندگی میں نیا انسان بنا کر کھڑا کر دیا۔[1]
اس دین پر ایمان لانے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان والی جماعت کے ساتھ شامل ہونے کے بعد ایمان ان کے دل کی گہرائیوں میں پیوست ہو گیا، اور جوش مارنا شروع کر دیا۔ جب اس کی اطلاع آپ کے مالک امیہ بن خلف کو ہوئی تو وہ کبھی آپ کو ڈراتا دھمکاتا اور کبھی لالچ دلاتا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس سے بلال کے عزم وحوصلے میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اور وہ کسی قیمت پر بھی کفروجاہلیت اور ضلالت وگمراہی کی طرف لوٹنے کے لیے تیار نہیں ، تو آپ پر سخت غضبناک ہوا اور آپ کو سخت عذاب میں مبتلا کرنے کا قصد کر لیا، وہ آپ کو چوبیس گھنٹہ بھوکا رکھ کر دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں لے گیا اور جلتی ہوئی ریت پر پیٹھ کے بل لٹا دیا، پھر اپنے غلاموں کو حکم دیا اس پر بھاری پتھر رکھو، انہوں نے آپ کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا اور آپ کے دونوں ہاتھ جکڑ دیے گئے، پھر امیہ بن خلف نے کہا: تم جب تک محمد کا انکار نہیں کرتے اور لات وعزیٰ کی پوجا نہیں کرتے، تمہیں یہی سزا ملتی رہے گی۔ بلال رضی اللہ عنہ نے پورے صبر واستقامت کے ساتھ جواب دیا: احد، احد۔ امیہ بن خلف ایک مدت تک بلال رضی اللہ عنہ کو اس دردناک طریقے سے سزا دیتا رہا۔[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وزیر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اس جگہ پہنچے، امیہ بن خلف سے گفتگو کی اور فرمایا: اس بے چارے کے بارے میں تم اللہ سے ڈرتے نہیں ، کب تک تم اس کو اس طرح ستاتے رہو گے؟ اس نے کہا: تم نے ہی تو اس کو برباد کیا ہے، تم ہی اس کو بچاؤ۔ آپ نے کہا: ٹھیک ہے، میرے پاس اس سے قوی وطاقتور ایک کالا غلام ہے اور تمہارے دین پر ہے، میں تمہیں اس کے بدلے دے رہا ہوں ۔ اس نے کہا: میں نے قبول کر لیا۔ آپ نے وہ غلام اس کے حوالے کیا اور بلال رضی اللہ عنہ کو لے کر آزاد کر دیا۔[3] ایک روایت کے مطابق آپ نے بلال کو سات یا چالیس اوقیہ سونا کے عوض خرید کر آزاد کر دیا۔[4] (تفصیل کے لیے دیکھیے سیرت سیّدنا ابوبکر صدیق، ص: ۷۲)
آپ کی پہلی ہجرت اور ابن الدغنہ کا مؤقف:
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے جب آنکھیں کھولیں تو اپنے والدین کو اسلام پر پایا، ہر روز صبح وشام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لاتے تھے۔ جب مسلمانوں کی ابتلاء وآزمائش کا دور آیا تو
[1] التربیۃ القیادیۃ: ۱/۱۳۶۔
[2] عتیق العتقاء (ابوبکر الصدیق) محمود البغدادی: ۳۹،۴۰۔
[3] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: ۱/۳۹۴۔
[4] التربیۃ القیادیۃ: ۱/۱۴۰۔