کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 468
کو بھڑکانے کے لیے لوگوں کو مدینہ کی طرف خروج کرنے پر ابھارنا شروع کیا، اس دعویٰ کے ساتھ کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت نا حق لی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی علی رضی اللہ عنہ کی کرسی پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے۔[1] پھر انہیں جعلی خطوط سے دھوکا دیا کہ یہ اکابرین صحابہ کی طرف سے خطوط آئے ہیں یہاں تک کہ جب یہ دیہاتی مدینہ پہنچے اور صحابہ سے ملے تو ان کی طرف سے کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی، بلکہ انہوں نے ان خطوط سے انکار کیا جو عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بھڑکانے کے لیے پیش کیے گئے تھے۔[2] ان لوگوں نے دیکھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کے حقوق ادا کرتے ہیں اور سب کے قدر داں ہیں ۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے،جو باتیں آپ کی طرف منسوب کی گئی تھیں ، اس سے متعلق ان سے مناظرہ کیا، اور ان کی افتراء پردازیوں کا پردہ چاک کیا، اور اپنی کارروائیوں کی صداقت واضح کی، یہاں تک کہ ان آئے ہوئے دیہاتیوں میں ایک شخص مالک اشترنخعی نے کہا: شاید ان کے اور تمہارے ساتھ جعل سازی کی گئی ہے۔[3] امام ذہبی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن سبا کو مصر میں فتنہ کو برانگیختہ کرنے والا، گورنروں اور افسران پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف غم و غصہ اور اختلاف و بغاوت کا بیج بونے والا قرار دیا ہے۔[4] اس تحریک میں ابن سبا تنہا نہ تھا بلکہ وہاں سازشوں اور فسادیوں کا ایک نیٹ ورک کام کر رہا تھا اور مکر و فریب، جعل سازی، دھوکا دہی کے اسالیب اور بدوؤں اور قراء کی بھرتی کا ایک جال بچھایا گیا تھا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بلوائیوں کے ٹوٹ پڑنے کے اسباب میں سے عبداللہ بن سبا کا ظہور، اس کا مصر جانا اور لوگوں کے درمیان اپنی من گھڑت باتوں کو پھیلانا تھا، جس کی وجہ سے بہت سے مصری فتنہ میں پڑ گئے۔[5] سبائیوں کی یہ تحریک انتہائی منظم تھی، ان کے منصوبے اس بات کی شہادت دیتے ہیں ، یہ اپنے افکار و نظریات کی نشر و اشاعت میں انتہائی مہارت رکھتے تھے، فسادیوں اور عوام الناس کے درمیان پروپیگنڈہ اور اثر انداز ہونے کے مالک تھے، اور مختلف علاقوں میں اپنی تحریک کے فرعی مراکز قائم کرنے میں بڑے تیز تھے، خواہ بصرہ ہو یا کوفہ یا مصر ہر جگہ ان کے مراکز تھے۔ قبائلی عصبیتوں کو ابھارتے اور بدوؤں ، غلاموں اور موالی کے درمیان غم و غصہ ابھارنے پر پوری قدرت رکھتے تھے، اور ان کے ارادوں اور ان کی زندگیوں کے حساس مواضع کا انہیں پورا پتہ تھا۔[6]
[1] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۳۰)، تاریخ الطبری (۵؍۳۴۸) [2] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۳۰)، تاریخ الطبری (۵؍۳۶۵) [3] ایضًا (۱؍۳۳۱) [4] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۳۸) [5] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۱۶۷۔۱۶۸) [6] تحقیق مواقف الصحابۃ فی الفتنۃ (۱؍۳۳۹)