کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 466
’’بے شک جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے وہ آپ کو دوبارہ پہلی جگہ لانے والا ہے۔‘‘
لہٰذا محمد صلی اللہ علیہ وسلم عیسیٰ علیہ السلام کی بہ نسبت رجعت کے زیادہ حقدار ہیں ۔[1]
اسی طرح اس نے دوسرے قیاس فاسد کا سہارا لیا اور علی رضی اللہ عنہ کے لیے وصیت کے اثبات کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا: ’’ہزار انبیاء گزرے ہیں اور ہر نبی نے اپنا ایک وصی چھوڑا ہے، اور علی رضی اللہ عنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں ۔‘‘
نیز کہا: ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں ، اور علی رضی اللہ عنہ خاتم الاوصیاء ہیں ۔‘‘[2]
جب اس کے متبعین کے اندر یہ چیزیں جاگزیں ہو گئیں تو وہ اپنے منصوبہ ومقصد کی طرف آگے بڑھا اور وہ مقصد عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کا تھا اور یہ بعض لوگوں کی خواہشات کے عین موافق ثابت ہوا۔ اس نے لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ بھلا بتاؤ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو نافذ نہ ہونے دے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی کی کرسی پر کود کر بیٹھ جائے، اور خلافت کو اپنے ہاتھ میں لے لے؟ پھر یہ کہنا شروع کیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے بغیر حق کے خلافت لی ہے، ان کا یہ حق نہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی موجود ہیں ، لہٰذا تم اس سلسلہ میں اٹھو اور ان کو حرکت دلاؤ، اپنے امراء و افسران پر طعن و تنقید شروع کرو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ظاہر کرو، لوگوں کو اپنی طرف مائل کرو اور انہیں اس کی دعوت دو۔[3]
عبداللہ بن سبا نے اپنے داعیان کو پوری خلافت میں پھیلا دیا، اور صوبوں کے ان حضرات سے خط و کتابت شروع کی جن کے دل و دماغ کو اپنے زہر سے مسموم کر چکا تھا، پھر ان سب نے خاموش دعوت شروع کی، اور بظاہر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی کا نام لیا۔ دوسرے شہروں اور صوبوں کو خطوط بھیجتے اور اس میں اپنے صوبوں اور شہروں کے امراء وافسران کے من گھڑت عیوب و نقائص تحریر کرتے، ہر صوبے و شہر میں موجود سبائی دوسرے صوبے اور شہروں کو اس طرح کے خطوط ارسال کرتے، اور پھر ان خطوط کو پڑھ کر لوگوں کو سناتے، یہاں
[1] تاریخ الطبری (۵؍۳۴۷)اس آیت کریمہ کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے مولد مکہ جہاں سے نکلنے پر آپ مجبور کر دیے گئے تھے، وہاں واپس فاتحانہ طور پر پہنچائے گا، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی یہی تفسیر بیان فرمائی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔ دیکھیے: صحیح بخاری حدیث نمبر (۴۷۷۳) اور بعض مفسرین نے اس سے مراد قیامت لی ہے۔ دیکھیے: فتح الباری (۸؍۳۶۹) رجعت شیعوں کے بنیادی عقائد میں سے ہے، وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرب قیامت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علی، حسن و حسین رضی اللہ عنہم دوبارہ دنیا میں واپس آئیں گے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بدلہ دلائیں گے۔ (العیاذ باللہ) اس گمراہ کن باطل عقیدہ کا بانی عبداللہ بن سبا ہے جیسا کہ شیعی کتب نے اعتراف کیا ہے۔ (مترجم)
[2] تاریخ الطبری (۵؍۳۴۷) وصایت کا عقیدہ شیعوں کے عقائد میں سے ہے یعنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی وصیت کی تھی، حالاں کہ ایسی کسی وصیت کا کوئی ثبوت نہیں اگر ایسی کوئی وصیت ہوتی تو علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت اس کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے اور مسلسل تین خلفاء کے ہاتھوں پر بیعت کر کے کتمان حق نہ کرتے۔ در حقیقت یہ بھی عبداللہ بن سبا کا من گھڑت عقیدہ ہے۔ (مترجم)
[3] تاریخ الطبری (۵؍۳۴۸)