کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 465
جہاد ظلم کے خلاف ہے، وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کر رہے ہیں ، گورنروں کی تبدیلی اور معزولیت کا مطالبہ، اس مطالبہ نے ترقی کرتے ہوئے خلیفہ کی برطرفی کی شکل اختیار کر لی، پھر ان کی جرأت اس قدر بڑھی کہ خلیفہ کو قتل کرنے میں تیزی دکھائی، خاص کر جب انہیں یہ خبر ملی کہ خلیفہ کی نصرت کے لیے صوبوں سے کمک پہنچ رہی ہے، خلیفہ پر گرفت کے جذبات بھڑکے، اور کسی بھی طرح خلیفہ کو قتل کرنے کا شوق بڑھا۔[1]
۸۔ فتنے برپا کرنے میں سبائیوں کا اثر اور فتنہ کی تحریک میں عبداللہ بن سبا کا کردار
عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری سالوں میں مذکورہ تبدیلی کے اسباب و عوامل کے نتیجہ میں اسلامی معاشرہ کے افق پر اضطراب کے آثار رونما ہونا شروع ہوئے۔ بعض یہود اس موقع کے انتظار میں تھے اور انہوں نے فتنہ کے اسباب و عوامل کو اختیار کیا، اور اسلام کا لبادہ اور تقیہ کی چادر اوڑھ کر میدان میں اتر آئے، انہی میں سے عبداللہ بن سبا تھا جس کا لقب ابن السوداء تھا، جس طرح ابن سبا کے کردار کے سلسلہ میں مبالغہ آرائی صحیح نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگوں نے کیا ہے،[2] اسی طرح اس کے کردار سے متعلق تشکیک بھی جائز نہیں ۔ فتنہ برپا کرنے میں اس نے جوکردار ادا کیا ہے اس کو معمولی قرار نہیں دیا جا سکتا، فتنہ کے اسباب و اعوامل میں اس کا کردار اہم ترین اور انتہائی خطر ناک رہا ہے، اگرچہ وہ فضا فتنہ کے لیے سازگار تھی اور دیگر اسباب و عوامل نے اس کا ساتھ دیا تھا۔ ابن سبا ایسے افکار و عقائد لے کر آیا جس کو اس نے خود سے گھڑا، اور بدباطن یہودیت سے اخذ کیا، اور پھر اسلامی معاشرہ میں اپنے مقاصد کی برآری کے لیے اس کی ترویج و اشاعت کرنے لگا۔ اس کا مقصد اسلامی معاشرہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا، فتنہ کی آگ بھڑکانا اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف و انتشار کا بیج بونا تھا، یہ ان جملہ عوامل و اسباب میں سے تھے جس کے نتیجہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل ہوا، اور امت مختلف فرقوں اور پارٹیوں میں بٹ گئی۔[3]
اس کے کرتوتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اس نے سچائی کی ترجمانی دعووں کو اساس بنایا اور اس پر اپنے فاسد مبادی کی بنیاد قائم کی، جو سادہ لوح، غالی اور باطل افکار و خواہشات کے حاملین کے درمیان خوب پھیلے، اس نے پر پیچ راستہ اختیار کیا، اور اپنے مریدوں کو دھوکہ دیا، اور وہ اس کے افکار و نظریات سے متفق ہو گئے، اس شخص نے قرآن کا سہارا لیا اور اپنے زعم فاسد کے مطابق اس کی تاویل شروع کی، چنانچہ اس نے کہا: لوگوں پر تعجب ہے کہ وہ یہ تو جانتے ہیں کہ عیسیٰ ( علیہ السلام ) قرب قیامت میں دنیا میں لوٹ کر آئیں گے، لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رجعت کی تکذیب کرتے ہیں ، حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ﴾ (القصص: ۸۵)
[1] دراسات فی عہد النبوۃ و الخلافۃ الراشدۃ ص (۴۰۲)
[2] دیکھیے: سعید افغانی کی کتاب: عائشۃ والسیاسۃ
[3] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۲۷)