کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 464
تحریر فرمایا: حمد و صلاۃ کے بعد معلوم ہو رعیت انتشار کا شکار ہے، حرص میں لگ چکی ہے اور اس کے تین اسباب ہیں : ترجیح دی جانے والی دنیا، تیز رفتار باطل افکار و نظریات اور سینوں میں چھپا ہوا کینہ و حسد۔[1] امام ابن العربی رحمہ اللہ ان تمام اعتراضات سے متعلق فرماتے ہیں : ظالموں نے کذابوں کی روایتوں کے سہارے یہ کہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں مظالم و منکرات کا ارتکاب کیا حالاں کہ یہ سب کا سب سند و متن دونوں اعتبار سے باطل ہے۔[2] علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ معصوم نہ تھے، فرماتے ہیں : قاعدہ کلیہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو معصوم نہیں مانتے، بلکہ خلفاء اور دیگر لوگوں سے غلطیاں اور گناہ صادر ہو سکتے ہیں ، وہ اس سے توبہ کرتے ہیں اور ان کی ڈھیرساری نیکیاں اور ابتلاء و مصائب ان کے لیے کفارئہ سیئات ثابت ہوتے ہیں ، اور ان کے علاوہ امور بھی ان کے لیے کفارہ ہو سکتے ہیں تو جو کچھ عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق منقول ہے وہ غلط ہے یا گناہ، عثمان رضی اللہ عنہ کو اسباب مغفرت مختلف شکلوں میں حاصل ہیں ۔ آپ کی طاعت اور نیکیاں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت، بلکہ مصیبت کے ساتھ جنت کی بشارت[3] اور پھر آپ نے ان تمام اعتراضات سے جو آپ پر اٹھائے گئے توبہ کی اور بہت بڑی آزمائش سے دوچار ہوئے۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی خطاؤں کو معاف کر دیا، اور صبر کا دامن تھامے رکھا یہاں تک کہ آپ مظلوم شہید ہوئے۔ اور یہ سب سے عظیم چیز ہے جس سے اللہ خطائیں معاف کر دیتا ہے۔[4] ۷۔ لوگوں کو برانگیختہ کرنے والے وسائل و اسلوب اختیار کرنا: لوگوں کو برانگیختہ کرنے والے وسائل میں سب سے اہم اسلوب سنسی خیز افواہوں کی اشاعت تھی۔ پھر لوگوں کو آپ کے خلاف بھڑکانا، اور براہ راست لوگوں کے سامنے خلیفہ سے مناظرہ و مجادلہ پر اتر آنا اور گورنروں کے خلاف طعن و تشنیع اور اعتراضات کی بھرمار تھی۔ اسی طرح اکابرین صحابہ ام المومنین عائشہ، علی، طلحہ، زبیر رضی اللہ عنہم کے نام منسوب جعلی اور من گھڑت خطوط پھیلانا اور پھر یہ اشاعت کرنا کہ علی رضی اللہ عنہ خلافت کے زیادہ حق دار ہیں ، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے وصی ہیں ، بصرہ کوفہ اور مصر میں خلیفہ مخالف تنظیم قائم کرنا، اور ہر شہر میں چار چار جماعتیں تشکیل دینا جو اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے سے اس کی منصوبہ بند تدبیر کی گئی تھی، اور مدینہ والوں کو باور کرایا کہ یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دعوت پر مدینہ آئے ہیں ۔ اور پھر حالات کو اس قدر کشیدہ کیا کہ قتل کی شکل میں نتیجہ ظاہر ہوا۔ ان وسائل کے ساتھ ساتھ انہوں نے مختلف نعرے استعمال کیے مثلاً تکبیر، اور یہ کہ ان کا یہ
[1] التمہید والبیان ص (۶۴) [2] العواصم من القواصم ص (۶۱۔۶۳) [3] مسلم ، فضائل الصحابۃ (۴؍۱۸۶۷۔۱۸۶۹) [4] ذوالنورین عثمان بن عفان؍ محمد مال اللّٰه ص (۶۳)