کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 460
عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پیش آئی۔[1] مسلمانوں کے درمیان ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں اور عثمان رضی اللہ عنہ کے شروع میں کوئی اختلاف نہ تھا، پھر آپ کے آخری دور میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ اختلاف رونما ہوا، فتنہ پرور اٹھے اور عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا، اور اس کے بعد مسلمانوں میں اختلاف برپا ہو گیا۔[2] ۱۔ جاہلی عصبیت: ابن خلدون کا بیان ہے: جب فتوحات تکمیل کو پہنچیں ، ملت اسلامیہ کے لیے سلطنت مکمل ہو گئی، عرب سرحدی شہروں بصرہ، کوفہ، شام و مصر میں سکونت پذیر ہو گئے، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور آپ کے اخلاق و عادات کی اقتداء سے سرفراز ہونے والے مہاجرین، انصار، قریش اور اہل حجاز رہے جب کہ باقی عرب بنو بکر، عبدالقیس، ربیعہ، ازد، کندہ، تمیم، قضاعہ وغیرہ میں سے قلیل افراد کے علاوہ کو صحبت کا یہ مقام نہ مل سکا، لیکن اسلامی فتوحات میں ان لوگوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے تھے اور اس کو اپنی خصوصیات شمار کرتے تھے، نیز اپنے فضلاء بزرگ یعنی سابقون اولون کی فضیلت کے معترف تھے اور ان کے حق کو سمجھتے تھے، نبوت و وحی اور فرشتوں کے نزول کے سلسلہ میں ایک طرح کی حیرت و تعجب کا شکار تھے، لہٰذا جب یہ سیلاب رواں رکا اور تھوڑی غفلت طاری ہوئی، دشمن ذلیل ہوا سلطنت پھیل گئی اور جاہلی رگیں پھڑک رہی تھیں اور دیکھا کہ مہاجرین و انصار اور قریش و دیگر لوگ ان پر قیادت کر رہے ہیں تو ان نفوس نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا، اور یہ سب کچھ عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پیش آیا آپ کے گورنروں پر طعن و تشنیع شروع ہوا، بات بات پر ان پر تنقیدیں ہونے لگیں ، ان کی اطاعت سے گریز کرنے لگے، ان کی معزولی و تبدیلی کا مطالبہ ہونے لگا اور عثمان رضی اللہ عنہ پر نکیر کرنے لگے۔ ان کے متبعین میں یہ بات پھیل گئی پھر وہ اپنے اپنے مقام پر ظلم کی باتیں کرنے لگے اور اس کی خبریں مدینہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پہنچیں شکوک و شبہات کو عام ہونے کا موقع ملا اور عثمان رضی اللہ عنہ کی معزولی کی باتیں عام ہو گئیں ۔ اس صورت حال میں عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض امراء کو معزل کر دیا، اور صورت حال کا صحیح جائزہ لینے کے لیے لوگوں کو صوبوں میں روانہ کیا تاکہ صحیح رپورٹ پیش کریں … یہ لوگ جائزہ لے کر واپس ہوئے اور یہ رپورٹ پیش کی کہ صورت حال بالکل صحیح ہے، افواہیں غلط ہیں ، کوئی قابل اعتراض چیز نہیں دیکھی گئی، اور عوام و خواص کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔[3] ۲۔ اسلامی فتوحات کا رک جانا: عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری دور میں طبعی اور بشری رکاوٹوں کے سامنے اسلامی فتوحات کا سلسلہ رک گیا اور آگے نہ بڑھا خواہ فارس کی سمت میں ہو یا شام کی سمت میں یا افریقہ (تونس) کی جہت میں ، جس کے نتیجہ میں مال غنیمت
[1] طبقات ابن سعد (۱؍۳۹۔۴۷)، البدایۃ والنہایۃ (۷؍۱۴۴۔۱۴۹)، الخلفاء الراشدون ، الخالدی، ص (۱۱۲) [2] مجموع الفتاوی (۱۳؍۲۰) [3] تاریخ ابن خلدون (۲؍۴۷۷)