کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 46
﴿ ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ (النحل:۱۲۵) ’’اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجیے، یقینا آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور راہ یافتہ لوگوں سے بھی پورا واقف ہے۔‘‘ دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں آپ کی نقل وحرکت اس دین پر ایمان اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے سلسلہ میں ایسے مومن کی واضح تصویر پیش کرتی تھی جسے اس وقت تک چین وسکون نہیں آتا جب تک لوگوں کے اندر اپنے ایمان وعقیدہ کو راسخ نہ کر دے۔ یہ کوئی وقتی تحریک وجذبہ نہ تھا جو جلد ہی مضمحل ہو جاتا، بلکہ اسلام کے لیے آپ کی جدوجہد اور نقل وحرکت تا دم وفات باقی رہی، کبھی نہ تھکے نہ کمزور پڑے، نہ اکتاہٹ محسوس کی اور نہ عاجز آکر بیٹھے۔[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دعوت کا پہلا ثمرہ مقدس ترین ہستیوں کا مشرف بہ اسلام ہونا تھا، وہ ہستیاں یہ تھیں : زبیر بن العوام، عثمان بن عفان، طلحہ بن عبیداللہ، سعد بن ابی وقاص، عثمان بن مظعون، ابوعبیدہ بن الجراح، عبدالرحمن بن عوف، ابو سلمہ بن عبدالاسد، ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہم ۔ اللہ کی راہ میں ستائے ہوئے لوگوں کی آزادی کے لیے مال خرچ کرنا: مکہ کے جاہلی معاشرہ میں اسلامی دعوت کی اشاعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو مشرکین کی طرف سے اذیت رسانی میں اضافہ ہوتا گیا اور اذیت رسانی اپنی انتہا کو پہنچ گئی، خاص کر کمزور اور بے یار و مددگار مسلمانوں کے ساتھ۔ ان کو سخت تکلیف پہنچائی جاتی تھی تاکہ یہ لوگ اپنے عقیدہ و اسلام سے باز آجائیں اور دوسروں کے لیے عبرت بن جائیں تاکہ دوسرے لوگ اسلام لانے کی جرأت نہ کر سکیں ۔ ان کمزوروں کو اذیت دی جاتی تھی اس سے کفار کے بغض وحسد کا اظہار ہوتا تھا۔ اس سلسلہ میں بلال رضی اللہ عنہ بری طرح ستائے گئے، آپ کی پشت پنا ہی کرنے والا کوئی نہ تھا اور نہ آپ کا خاندان وقبیلہ تھا جو آپ کی حمایت کرتا اور نہ آپ کی طرف سے تلوار اٹھانے والے تھے، جس کے ذریعہ سے آپ کا دفاع ہو سکے۔ اس طرح کے انسان کی مکہ کے جاہلی معاشرہ میں کوئی قدر وقیمت نہ تھی۔ خدمت واطاعت اور مویشیوں کی طرح بیچے اور خریدے جانے کے علاوہ زندگی میں کوئی حیثیت نہ تھی۔ ایسے لوگوں کو کسی رائے وفکر یا کسی دعوت وقضیہ کو لے کر اٹھنے کا کوئی حق نہ تھا، مکہ کے جاہلی معاشرہ میں یہ انتہائی سنگین جرم تھا، اس سے
[1] الوحی وتبلیغ الرسالۃ، د۔ یحیی الیحیی: ۶۲۔