کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 459
تحریر کیا تھا ان مغربیت زدہ حضرات نے اسے ہضم کیا اور اسی کو اپنی اصل و اساس قرار دے کر ان کے افکار و شبہات کو اسلامی ممالک میں پھیلانے میں لگ گئے۔ مسلمانوں کے افکار و ثقافت پر اس کا بہت برا اثر پڑا۔ ان تمام برائیوں کی اصل رفض رہی، مستشرقین کے آراء و افکار اور تشیع کے ساتھ ان کے تعلق کا تحقیقی مطالعہ اہم ترین موضوع ہے، اور وہ تحقیق و بحث کا مستحق ہے۔ علامہ ابن حزم (ت ۴۵۶ھ) کے دور سے ہی روافض کے شبہات و اکاذیب اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف ان کی افترا پردازیوں سے دشمن کافر نے استفادہ شروع کر دیا تھا۔[1]
ب:…بعض معاصر علمائے امت کی تصنیفات جو بالجملہ مفید ہیں [2] لیکن واقعات کو پیش کرنے کا طریقہ اور بعض صحابہ و تابعین کے مواقف کی تفسیر میں بہت زیادہ نا انصافی ہے مثلاً ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘[3] اور محمد ابوزہرہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’تاریخ الامم الاسلامیۃ ‘‘ اور ’’الامام زید بن علی‘‘۔ یہ کتابیں بعض صحابہ پر حملوں اور بنو امیہ پر طعن و تشنیع سے بھری ہیں ، انہیں خصائل حمیدہ اور عمل صالح سے عاری قرار دیا گیا ہے۔[4] ظاہر ہوتا ہے کہ ان علماء نے تاریخی روایات کی تحقیق سے کام نہیں لیا، اور رافضی و شیعی روایات کو اختیار کر لیا، انہی پر اپنی تحقیق و تجزیہ کی بنیاد رکھی۔ اللہ انہیں اور ہمیں معاف فرمائے۔
ج:…وہ تالیفات جس کے مولفین نے تاریخی روایات کے نقد کے سلسلہ میں علمائے جرح و تعدیل کا منہج اختیار کیا ہے، اور صحیح و ضعیف میں تمیز کی خاطر سند و متن کے سلسلہ میں انہیں محدثین کے اصولوں پر جانچا ہے، یہ تالیفات قابل قدر اور بہترین کوشش ہیں ۔ اس طرح ان کتابوں سے اس باطل کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور ان تاریخی واقعات کی صحیح تفسیر سامنے آسکتی ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضل و ایمان اور جہاد سے متعارض نہیں ۔[5]
(۲)… فتنہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے اسباب
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عثمان رضی اللہ عنہ بارہ سال تک امیر المومنین رہے، شروع کے چھ سال آپ پر کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا، آپ قریش کے نزدیک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے زیادہ محبوب تھے کیوں کہ عمر رضی اللہ عنہ ان پر سخت تھے اور عثمان رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ نرم تھے اور صلہ رحمی کرتے تھے۔ پھر اس کے بعد فتنہ شروع ہوا۔ مسلم مورخین نے عہد عثمانی کے نصف ثانی (۳۰ ۔۳۵ھ) میں رونما ہونے والے واقعات کو فتنہ سے تعبیر کیا ہے جس کے نتیجہ میں
[1] اصول مذہب الشیعہ الامامیۃ الاثنی عشریۃ (۳؍۱۴۵۹)
[2] یہ کسی حیثیت سے بھی مفید نہیں ہیں بلکہ شیعی کتب سے بھی زیادہ مضر ہیں اور اعدائے اسلام اور روافض کے لیے بہترین ہتھیار کا کام دیتی ہیں جو اہل سنت کے خلاف استعمال کرتے ہیں کیوں کہ ان کے مصنّفین اپنے آپ کو اہل سنت کہتے ہیں ۔ (مترجم)
[3] اس کتاب کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے حافظ صلاح الدین یوسف کی کتاب ’’خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت‘‘ کا مطالعہ ضروری ہے۔ (مترجم)
[4] احداث و احادیث فتنۃ الہرج ص (۸۱)
[5] ایضاً