کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 454
معاویہ نے کہا: یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، میں نے کہا: ہمارے اور ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارے اور ان کے درمیان کچھ باتیں ہوئیں اور انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے اس کی شکایت کی۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے بذریعے سے خط مجھے مدینہ آنے کا حکم دیا، لہٰذا میں مدینہ آگیا، میں مدینہ پہنچا تو لوگوں نے مجھے اس طرح گھیر لیا جیسے انہوں نے اس سے قبل مجھے نہیں دیکھا تھا، میں نے یہ صورتحال عثمان رضی اللہ عنہ سے بیان کی، تو انہوں نے فرمایا: اگر تم چاہو تو مدینہ سے کسی قریبی علاقہ میں اقامت پذیر ہو جاؤ۔ لہٰذا میں نے اس مقام کو اختیار کیا۔ اگر مجھ پر حبشی کو بھی امیر مقرر کر دیا جائے تو میں اس کو سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔[1] ابوذر رضی اللہ عنہ کی وفات اور آپ کے بچوں کو عثمان رضی اللہ عنہ کا اپنے بچوں میں ضم کر لینا: غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے عرض کیا: ابوذر رضی اللہ عنہ پیچھے رہ گئے، ان کے اونٹ نے انہیں پیچھے رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوڑو! اگر اس کے اندر خیر ہو گی تو اللہ تعالیٰ تم سے ملا دے گا، اور اگر ایسا نہیں تو اللہ نے تمھیں اس سے بچا لیا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنے اونٹ پر انتظار کیا، لیکن جب دیکھا کہ وہ آگے نہیں بڑھ رہا ہے تو اپنا ساز و سامان اس سے اتارا، اور اپنی پیٹھ پر لاد کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیدل چل دیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثنائے سفر میں ایک منزل پر قیام فرمایا، مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کسی کو آتے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کرے ابوذر ہوں ، جب لوگوں نے غور کیا تو کہا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم وہ تو ابوذر ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تنہا چلیں گے ، تنہا ہی مریں گے، اور تنہا ہی اٹھائے جائیں گے۔[2] زمانہ گزرا، عثمان رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت آیا، ابوذر رضی اللہ عنہ نے ربذہ میں سکونت اختیار کی، اور جب وفات کا وقت آیا تو اپنی بیوی اور غلام کو وصیت کی کہ جب میں وفات پا جاؤں تو مجھے غسل دینا اور کفن پہنا کر میرا جنازہ اٹھا کر بیچ راستے میں رکھ دینا، اور جو پہلا قافلہ گزرے اس سے کہنا یہ ابوذر کا جنازہ ہے۔ جب آپ کی وفات ہو گئی تو آپ کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا۔ ایک قافلہ کا گزر اس راستہ سے ہوا،قریب تھا کہ قافلہ آپ کو کچل دیتا، اتنے میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قافلے سے آگے بڑھے اور دریافت کیا: یہ کیا ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ یہ ابوذر رضی اللہ عنہ کا جنازہ ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا تھا: اللہ تعالیٰ ابوذر پر رحم فرمائے، یہ تنہا چلیں گے، تنہا وفات پائیں گے اور تنہا اٹھائے جائیں گے۔[3]پھر ان لوگوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور دفن کیا، اور ان کے بال بچوں کو لے کر مکہ روانہ ہوئے، اور انہیں عثمان رضی اللہ عنہ کے حوالہ کر دیا، اور عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو اپنے بچوں میں شامل کر لیا۔[4] اور ایک روایت میں ہے…’’ہم نے ان کی بچی کو اپنے ساتھ
[1] البخاری: الزکوٰۃ ، باب ماادی زکاتہ (۱۴۰۶) [2] السیرۃ النبوۃ؍ ابن ہشام (۴؍ ۱۷۸) [3] السیرۃ النبویۃ؍ ابن ہشام (۴؍۴۷۸) اس کی سند میں بریدہ بن سفیان اسلمی کو امام بخاری اور نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (مترجم) [4] التمہید والبیان فی مقتل الشہید عثمان ص (۸۷۔۸۸)