کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 453
اور احمد امین نے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اور مزدک فارسی کی رائے میں موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، اور وجہ تشبیہ یہ بیان کی ہے کہ ابن سبا یمن میں تھا اور عراق میں چکر لگایا کرتا تھا، اور اسلام سے قبل یمن و عراق میں فارسی موجود تھے، اس لیے اس کا بہت ہی قریبی احتمال ہے کہ اس نے یہ نظریہ عراق کے مزدکیوں سے حاصل کیا ہو، اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے حسن نیت سے اس نظریہ کو اختیار کر لیا ہو۔[1] لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ سے متعلق جو کہا گیا ہے اور جس کی وجہ سے عثمان رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع کی جاتی ہے سب باطل ہے، اس کی بنیاد کسی صحیح روایت پر نہیں ہے اسی طرح ابوذر رضی اللہ عنہ اور ابن سبا کے مابین اتصال سے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے، سب بالکل غلط ہے۔[2] صحیح بات یہ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنی پسند سے ’’ربذہ‘‘ میں اقامت کو اختیار کیا تھا، اور اس کا سبب فہم آیت میں آپ کا وہ موقف تھا جس میں آپ نے تمام صحابہ سے مخالفت کی تھی، اور اپنی رائے پر مصر تھے، اور کسی نے بھی اس پر آپ کی موافقت نہ کی، آخرکارآپ نے خود ہی ربذہ [3] میں اقامت پذیر ہونے کا مطالبہ کیا، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں وہاں بکثرت جایا کرتے تھے۔ آپ کو جبراً وہاں جلا وطن نہیں کیا گیا تھا اور نہ وہاں اقامت کرنے کے لیے آپ کو مجبور کیا گیا تھا، اور نہ خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنی رائے سے باز آنے کا حکم دیا، کیونکہ اس رائے کی معقول توجیہ ہو سکتی ہے، لیکن مسلمانوں کے لیے اس کا قبول کرنا لازم نہیں ۔[4] ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے متعلق صحیح ترین بات وہ ہے جو بخاری نے اپنی صحیح میں زید بن وہب سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ربذہ سے میرا گزر ہوا، میں نے وہاں ابوذر رضی اللہ عنہ کو پایا، میں نے ان سے دریافت کیا: آپ اس مقام پر کیوں اقامت پذیر ہیں ؟ فرمایا: میں شام میں تھا میرے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اس آیت سے متعلق اختلاف رونما ہوا: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴾ (التوبہ: ۳۴) ’’اے ایمان والو! اکثر احبار و رہبان لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں ، اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں ، اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں درد ناک عذاب کی خبر پہنچا دیجیے۔‘‘
[1] فجر الاسلام ص (۱۱۰) [2] المدینۃ المنورۃ فجر الاسلام (۲؍۲۱۷) [3] مکہ اور عراق کے راستہ میں ایک مقام کا نام ہے۔ [4] المدینۃ المنورۃ فجر الاسلام (۲؍۲۱۷)