کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 45
ایک دوسرے پر ظلم کی دعوت دیں گے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی میں فوراً ایمان لایا اور آپ کی تصدیق کی۔[1]
ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی خوشی ہوئی۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو سے فارغ ہوئے تو فوراً ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔ جب ان کے پاس سے چلے تو مکہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے آپؐ سے زیادہ کسی کو خوشی نہ تھی۔‘‘[2]
ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک گراں مایہ خزانہ تھے، جسے اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محفوظ کر رکھا تھا۔ قریشیوں میں آپ سب سے زیادہ محبوب تھے۔ وہ پاکیزہ بلند اخلاق جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیے تھے اس کی وجہ سے لوگ آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور آپ کے گرویدہ ہو رہے تھے۔ بلند کردار اور اچھا اخلاق وہ عنصر ہے جو لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کے لیے کافی ہے۔ آپ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((ارحم امتی بامتی ابوبکر)) [3]
’’میری امت میں ، میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابوبکر ہیں ۔‘‘
دعوت:
ابو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اور اسلام کی دعوت کا پرچم لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سیکھا تھا کہ اسلام عمل، دعوت اور جہاد کا دین ہے، جب تک انسان اپنی جان ، مال اور سب کچھ اللہ کے حوالے نہیں کر دیتا اس کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔[4]
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٢﴾ لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ﴾ (الانعام: ۱۶۲۔ ۱۶۳)
’’آپ فرما دیجیے کہ بالیقین میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے، جو سارے جہان کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں ۔‘‘
اسلامی دعوت کے لیے آپ بڑے متحرک تھے۔ آپ کی دعوت میں بڑی برکت تھی، جہاں جاتے اثر انداز ہوتے اور اسلام کا عظیم فائدہ ہوتا۔ آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا زندہ عملی نمونہ تھے:
[1] تاریخ الخلفاء للسیوطی: ۵۲۔
[2] البدایۃ والنہایۃ: ۳/ ۲۶، ۲۸۔
[3] صحیح الجامع الصغیر للالبانی رحمہ اللّٰه ۲/۸۔
[4] تاریخ الدعوۃ فی عہد الخلفاء الراشدین: ۸۷۔