کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 448
اس نہج پر زید رضی اللہ عنہ پوری احتیاط اور انتہائی تلاش و جستجو اور باریک بینی کے ساتھ تدوین قرآن میں لگے رہے۔[1] عہد نبوی اور عہد صدیقی کی کتابت قرآنی میں فرق: عہد نبوی اور عہد صدیقی کی کتابت میں یہ فرق تھا کہ عہد نبوی میں قرآن مختلف صحیفوں ، تختیوں ، کھجور کی ٹہنیوں ، تنوں اور بانس اور دیگر اشیاء پر تحریر کیا گیا تھا، اس کی سورتیں ترتیب سے ایک لڑی میں نہیں جمع کی گئی تھیں لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں کتابت قرآن کے سلسلہ میں یہ اہتمام کیا گیا کہ قرآن کو صحیفوں میں لکھا گیا، ہر سورت کو صحیفے میں آیات کی اس ترتیب کے ساتھ مدون کیا گیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے یاد کی تھی۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کتابت شدہ قرآن کو صحیفوں میں تحریر میں لائیں اور ہر سورت کی آیتوں کو صحیفے میں توقیفی ترتیب کے ساتھ مدون کریں ۔ [2] تیسرا مرحلہ …عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد میں عہد عثمانی میں قرآن کی جمع و تدوین کا سبب: سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آرمینیہ اور آذربیجان میں اہل شام اور اہل عراق کی اسلامی فوجیں ایک ساتھ جنگ لڑ رہی تھیں ، ان کے درمیان قرآن کی قراء ت میں اختلاف رونما ہوا جس سے حذیفہ رضی اللہ عنہ بے حد پریشان ہوئے اور عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: یہود و نصاری کی طرح کتاب الٰہی میں اختلاف رونما ہونے سے قبل اس امت کی خبر لیجیے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کو کہلا بھیجا کہ قرآن آپ ہمیں بھیج دیں ، اس کے مختلف نسخے کرا کے ہم آپ کو واپس کر دیں گے۔ ام المومنین نے قرآن کو عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ آپ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن العاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم فرمایا اور انہوں نے اس کے مختلف نسخے تیار کیے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے تینوں قریشی حضرات (عبداللہ، سعد، عبدالرحمن) سے فرمایا تھا کہ جب تمہارا قرآن کے کسی لفظ کے طرز تحریر میں زید بن ثابت سے اختلاف ہو تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو کیوں کہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، اور جب یہ حضرات قرآن کو مختلف مصاحف میں منتقل کر چکے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اصل صدیقی نسخہ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کو واپس کر دیا، اور پھر تیار کردہ مصاحف کا ایک ایک نسخہ خلافت اسلامیہ کے مختلف علاقوں کو بھیج دیا۔ اور اس کے علاوہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس ذاتی نسخے تھے اور انہوں نے اپنی یادداشت کے لیے اپنے اپنے ڈھنگ سے تحریر کر رکھے تھے انہیں جلا دینے کا حکم جاری کیا۔[3] (تاکہ بعد میں یہ چیز قرآن میں اختلاف کا سبب نہ ہو۔)
[1] الانشراح ورفع الضیق بسیرۃ ابی بکر الصدیق ؍ الصلابی ، ص (۲۰۶)۔ [2] المدینۃ النبویۃ فجر الاسلام و العصر الراشدی (۲؍۲۴۱) [3] البخاری؍ فضائل القرآن (۴۹۸۷)