کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 447
یہ مصحف تیار کر کے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ کر دیا گیا ، وہ آپ کی زندگی میں آپ کے پاس رہا، پھر آپ کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تحویل میں آگیا اور آپ کی وفات کے بعد ام المومنین حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کے پاس رہا۔[1]
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو جمع قرآن کے لیے منتخب کرنے کے اہم اسباب:
۱۔ آپ نوجوان تھے، آپ کی عمر ابھی صرف ۲۱ سال تھی، اس لیے آپ اس کام کے لیے زیادہ سرگرم اور چاق و چوبند ہو سکتے تھے۔
۲۔ آپ عقل رسا کے مالک تھے، آپ کے اندر اس کی زیادہ اہلیت پائی جاتی تھی، آپ اس کام کی نزاکت کو زیادہ سمجھ سکتے تھے، اور اللہ تعالیٰ جسے عقل رسا عطا فرماتا ہے اس کے لیے خیر کے راستے آسان کر دیتا ہے۔
۳۔ آپ ثقہ اور قابل اعتماد تھے، ہر طرح کے شوک و شبہات اور اتہامات سے پاک تھے۔ اس لیے لوگوں میں آپ کا عمل قابل قبول ہو گا، نفس مائل ہوں گے اور اس سے دل مطمئن ہوں گے۔
۴۔ آپ کاتب وحی رہ چکے تھے اس سلسلہ میں آپ کو پرانا تجربہ تھا، اور عملی طور سے یہ کام آپ کر چکے تھے یہ کوئی نیا کام نہ تھا۔[2]
۵۔ مزید برآں آپ ان چار ممتاز افراد میں سے تھے جنھوں نے عہد نبوی میں مکمل قرآن حفظ کر رکھا تھا۔ قتادہ سے روایت ہے: میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کن لوگوں نے حفظ قرآن مکمل کر رکھا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا: چار افرادنے جو سب کے سب انصار میں سے تھے: ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو زید رضی اللہ عنہم ۔[3]
تدوین قرآن کے سلسلہ میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جو طریقہ کار اختیار فرمایا وہ یہ تھا کہ آپ اس وقت تک مصحف میں کوئی چیز تحریر نہ فرماتے جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ یہ تحریر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عمل میں آئی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے حفظ کر رکھا ہے۔ صرف حفظ پر اعتماد نہ کرتے جب تک کہ وہ تحریری شکل میں موجود نہ ہو، کیوں کہ صرف حفظ کی صورت میں وہم و خطا کا خطرہ موجود تھا، اور کسی سے کوئی تحریر اس وقت تک قبول نہ کرتے جب تک وہ دو گواہ نہ پیش کر دے کہ یہ تحریر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عمل میں آئی ہے اور ان وجوہ و احرف میں سے ہے جس پر قرآن نازل ہوا ہے۔[4]
[1] البخاری (۴۹۸۶)۔
[2] التفوق والنجابۃ علی نہج الصحابۃ؍ احمد العجمی ص (۷۳)
[3] سیر اعلام النبلاء (۲؍۴۳۱)
[4] التفوق و النجابۃ علی نہج الصحابۃ ص ۷۴۔