کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 446
دوسرا مرحلہ… ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں :
معرکہ یمامہ میں حفاظ قرآن کی ایک کثیر تعداد نے جام شہادت نوش کیا جس کے نتیجے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآن کو جمع کرایا[1]اور یہ عظیم ذمہ داری آپ نے صحابی جلیل زید ابن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو سونپی، چنانچہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : معرکہ یمامہ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا، میں پہنچا تو وہاں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ موجود تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عمر میرے پاس آئے اور کہا: معرکہ یمامہ میں بہت سے قراء قتل ہو گئے ہیں ، اور مجھے خوف ہے کہ اگر دوسرے معرکوں میں اسی طرح قراء ِ قرآن قتل ہوتے رہے تو قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہو جائے گا۔ میری رائے ہے کہ آپ جمع قرآن کا حکم جاری فرمائیں ۔ اس پر میں (ابوبکر رضی اللہ عنہ ) نے عمر سے کہا کہ میں ایسا کام کیسے کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟[2]
عمر نے کہا: واللہ یہ کار خیر ہے، پھر برابر عمر مجھ سے اس کے لیے اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے میرا سینہ کھول دیا، جس کے لیے عمر کا سینہ کھولا تھا، اور اب میری بھی وہی رائے ہے جو عمر کی ہے۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم عقل مند نوجوان آدمی ہو، تم پر کوئی اتہام نہیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی لکھا کرتے تھے لہٰذا تم قرآن کو تلاش کر کے جمع کرو۔[3]
زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اللہ کی قسم اگر وہ مجھے کسی پہاڑ کو منتقل کرنے کا حکم فرماتے تو وہ میرے لیے جمع قرآن سے زیادہ مشکل نہ ہوتا، چنانچہ میں نے قرآن کو کھجور کی ٹہنیوں ، پتھر کی سلوں ، لوگوں کے سینوں ، چمڑوں اور شانہ کی ہڈیوں سے جمع کیا، یہاں تک کہ سورئہ توبہ کی آخری آیات: ﴿ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴾ (التوبۃ: ۱۲۸) سے آخری سورت تک صرف ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملیں ۔[4]
[1] حروب الردۃ و بناء الدولۃ الاسلامیۃ؍ احمد سعید ص (۱۴۵)
[2] یعنی ایک جلد میں کیسے جمع کروں جب کہ یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ہے۔
[3] یعنی تمہارے پاس اور دوسروں کے پاس جو نوشتے موجود ہیں اور لوگوں نے جو یاد کر رکھا ہے اس کی مدد سے قرآن کو ایک مصحف میں مدون کر دو۔
[4] چوں کہ جمع قرآن کے لیے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ زبانی بھی ہو اور ضبط تحریر میں بھی ہو، اور یہ آیات ان دونوں شرائط کے ساتھ صرف ابو خزیمہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ آیات کسی اور صحابی کو یاد نہ تھیں یا کسی اور کے پاس ضبط تحریر میں نہ تھیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں شرطوں کے ساتھ صرف ابوخزیمہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں جن کی گواہی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دے رکھا تھا۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ جمع قرآن کے لیے اصل وہ نوشتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس محفوظ تھے، اور اس سے مزید دیگر صحابہ کے پاس جو نوشتے تھے اور سینوں میں محفوظ تھا اس سے مدد لی گئی اور اس طرح پورے کا پورا قرآن تو اتر کے ساتھ ضبط تحریر میں لایا گیا۔ (مترجم)