کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 444
زبیر رضی اللہ عنہما کو ایک دستہ کے ساتھ روانہ کیا تاکہ وہاں سے کچھ خبر لائیں ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے پوری مستعدی کے ساتھ سفر جاری رکھا اور مسلمانوں کے پاس افریقہ پہنچ گئے جب آپ وہاں پہنچے تو شور مچ گیا اور مسلمانوں نے تکبیر پکاری۔ جرجیر نے دریافت کیا یہ آواز کیسی ہے؟ اس کو بتایا گیا کہ مدینہ سے مسلمانوں کو کمک پہنچی ہے چنانچہ اس خبر سے وہ حواس باختہ ہو گیا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے دیکھا کہ مسلمان صبح سے ظہر تک لڑتے ہیں ، اور ظہر کی اذان ہوتے ہی فریقین اپنے اپنے خیموں میں واپس ہو جاتے ہیں پھر جنگ بند ہو جاتی ہے۔ دوسری صبح آپ نے جنگ میں شرکت کی تو عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے ساتھ نہیں پایا، لوگوں سے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ جرجیر نے اعلان کر رکھا ہے کہ جو عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کو قتل کر دے اس کو ایک لاکھ دینار انعام دوں گا اور اپنی بیٹی سے اس کی شادی کروں گا، جس کی وجہ سے عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ اپنے لیے خطرہ محسوس کر رہے ہیں اور ظاہر نہیں ہو رہے ہیں ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان سے کہا: آپ یہ اعلان کرائیں کہ جو شخص جرجیر کا سرلے کر آئے گا اس کو ایک لاکھ دینار دیا جائے گا اور جرجیر کی بیٹی سے اس کی شادی کرا دی جائے گی، اور اس کے ملک پر اس کو گورنربنا دیا جائے گا۔ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا جس کا یہ اثر ہوا کہ جرجیر عبداللہ بن سعد سے زیادہ خوفزدہ ہوا اور اپنے لیے شدید خطرہ محسوس کرنے لگا۔ پھر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: موجودہ شکل میں جنگ طول کھینچے گی، یہ لوگ اپنے ملک میں ہیں اور برابر ان کو امداد ملتی رہتی ہے جب کہ ہم اپنے ملک اور مسلمانوں سے دور ہیں ، لہٰذا میری رائے ہے کہ کل کچھ صالح افراد کو جنگ میں نہ شریک کر کے خیموں میں تیار رہنے دیں اور ہم دشمن کی صف میں گھس کر گھمسان کی جنگ کریں یہاں تک کہ وہ تھک ہار جائیں ، اور جب فریقین اپنے خیموں میں واپس ہو جائیں تو جو لوگ جنگ میں شریک نہ ہو کر خیموں میں تیار بیٹھے تھے ہم ان کے ساتھ اچانک دشمن پر ہلہ بول دیں ، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح ہمیں فتح و نصرت سے ہمکنار فرمائے۔ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے اکابرین صحابہ کی ایک جماعت کو جمع کیا اور اس سلسلہ میں ان سے مشورہ لیا، تمام لوگوں نے اس رائے پر موافقت کی۔ دوسرے دن عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔ تمام بہادر مسلمانوں کو خیموں میں باقی رکھا اور ان کے گھوڑوں کو زین کس کر تیار رکھا، اور باقی لوگ رومیوں سے ظہر تک گھمسان کی جنگ لڑتے رہے۔ جب ظہر کی اذان ہوئی تو رومیوں نے اپنے خیموں کو واپس ہونا چاہا لیکن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ان کو اس کا موقع نہ دیا اور ان سے شدید جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ ان کو تھکا دیا، پھر طرفین اپنے اپنے خیموں کو واپس ہوئے اور اپنے ہتھیار اتار کر آرام کرنے لگے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ان تازہ دم مجاہدین کو جن کو خیموں میں باقی رکھا تھا ساتھ لیا اور اچانک رومیوں پر ٹوٹ پڑے اور ان کے اندر گھس کر یکبارگی ہلہ بول دیا، ان