کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 442
کی۔ جب تیاری مکمل ہو گئی تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے مجاہدین کو خطاب فرمایا، جہاد کی رغبت دلائی اور فرمایا: تمہارے اوپر میں نے حارث بن حکم کو امیر مقرر کیا ہے اور جب تم سب عبداللہ بن سعد کے پاس پہنچ جاؤ تو تم سب عبداللہ بن سعد کی امارت میں کام کرنا، وہی تمہارے امیر ہوں گے۔ اب میں تمھیں اللہ کے حوالہ کرتا ہوں ۔
روایت ہے کہ اس معرکے کے لیے عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار اونٹ فراہم کیے، اور نادار مسلمان مجاہدین کو ان پر سوار کیا۔ جب یہ اسلامی لشکر مصر پہنچا تو عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کے لشکر میں جا ملا، اور عبداللہ بن سعد کی قیادت میں بیس ہزار کا یہ لشکر فسطاط سے روانہ ہوا اور مصر و لیبیا کے حدود کو پار کرتے ہوئے برقہ پہنچا، وہاں عقبہ بن نافع فہری اپنے لشکر کے ساتھ آکر ان کے ساتھ مل گئے۔ اسلامی لشکر کو برقہ میں کسی طرح کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا، کیوں کہ یہ ان شرائط پر قائم رہے جس پر انہوں نے مسلمانوں سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے دور میں مصالحت کی تھی یہاں تک کہ وہاں خراج وصول کرنے والے کو جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ وہ خود مناسب وقت میں مصر پہنچا دیا کرتے تھے۔ برقہ کے معاہدے پر قائم رہنے کے اس پس منظر میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا گیا کہ میں اپنے اس مقام پر ہوں اور مجھ پر انطابلس (برقہ) کے لوگوں کے علاوہ مصر کے کسی قبطی کا کوئی عہد و پیمان نہیں ہے۔ میرے ذمہ ان کا عہد و پیمان ہے اس کو پورا کیا جائے گا۔ اسی طرح عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے تھے: اگر حجاز میں میری جائداد نہ ہوتی تو میں برقہ میں سکونت اختیار کر لیتا کیوں کہ اس سے بڑھ کر کوئی محفوظ اور پر سکون جگہ نہیں پاتا ہوں ۔[1]
اس طرح یہ بابرکت لشکر اسلام افریقہ کی طرف عقبہ بن نافع کے انضمام کے بعد روانہ ہوا۔ اس لشکر کے کمانڈر اِن چیف عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ برابر اطلاعی دستوں اور خبر رسانی کرنے والوں کو مختلف سمتوں میں روانہ کرتے رہے تاکہ راستوں کا انکشاف اور حفاظت ہو اور دشمن کی نقل و حرکت پر نگاہ رہے، دشمن کی کمین گاہوں اور اچانک حملوں سے حفاظت ہو سکے، ان اطلاعی دستوں کا فائدہ یہ ہوا کہ رومیوں کی بہت سی جنگی کشتیاں جو لیبیا کے ساحل پر طرابلس کی بندرگاہ میں ٹھہری تھیں مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں اور اس میں لدا ہوا سازو سامان مسلمانوں کو بطور غنیمت حاصل ہوا۔ سو سے زائد افراد قید کیے گئے، افریقہ کی فتح کی راہ میں یہ پہلا مال غنیمت تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔[2]
عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے افریقہ کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور ہر سمت اطلاعی دستے اور جاسوس روانہ کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کا لشکر امن و امان کے ساتھ سبیطلہ پہنچ گیا، اور وہاں اسلامی لشکر عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اور حاکم افریقہ جرجیر کا لشکر ایک دوسرے کے مقابلے میں آگئے۔ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ اور جرجیر کے
[1] لیبیا من الفتح العربی حتی انتقال الخلافۃ الفاطمیۃ الی مصر ، ص (۳۹)
[2] الشرف و التسامی بحرکۃ الفتح الاسلامی ص (۱۹۱)