کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 441
انہیں مکمل آزادی حاصل ہو۔ یہ با برکت حملے اس علاقے کو روشنی عطا کرنے اور لوگوں کو بندوں کی غلامیوں سے نکال کر بندوں کے رب کی غلامی میں پہنچانے کا بنیادی سبب تھے جب کہ یہ پورا علاقہ بت پرستی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انسانوں ہی کو رب بنا لیا تھا۔[1]عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کے افریقہ پر چڑھائی سے متعلق ڈاکٹر صالح مصطفی رقم طراز ہیں : ’’۲۶ھ مطابق ۶۴۶ء میں عمرو بن العاص مصر کی ولایت سے معزول ہوئے، اور عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہما کو وہاں کا والی مقرر کیا گیا۔ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ شہسواروں کے دستے بھیجتے رہے، جس طرح عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے دور میں تھا، یہ دستے افریقہ کے اطراف پر چھاپہ مارتے اور غنیمت حاصل کرتے۔‘‘[2] یہ دستے افریقہ (تونس) کا رخ کرتے تاکہ مستقبل میں اس کی صورت حال سے واقفیت حاصل ہو اور اس کی فتح کا راستہ ہموار ہو۔ شہسواروں کے یہ رسالے اطلاعی دستوں کے مانند تھے جن کا مقصد دشمن سے متعلق تفصیلات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ جب عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس افریقہ سے متعلق کافی معلومات جمع ہو گئیں ، اس کا جغرافیائی موقع و محل، دخول و خروج کے راستے اور فوج و جنگی ساز و سامان کی تفصیلات مل گئیں تو اس وقت آپ نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو افریقہ سے متعلق ان اہم معلومات کی اطلاع بھیجی، اور اس کو فتح کرنے کی اجازت طلب کی، ان کی طلب قبول ہوئی اور دربار خلافت سے افریقہ کو فتح کرنے کی اجازت مل گئی۔ ڈاکٹر صالح مصطفی فرماتے ہیں : جب عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے افریقہ پر چڑھائی کی اجازت طلب کی تو عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو جمع کیا، اور اس سلسلہ میں ان سے مشورہ طلب کیا، تو ابو الاعور سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام لوگوں نے افریقہ کو فتح کرنے کا مشورہ دیا۔ سعید بن زید رضی اللہ عنہ ، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے موقف پر قائم تھے۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہو گیا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے جہاد کا اعلان کیا، خلافت اسلامیہ کی راجدھانی مدینہ منورہ میں رضاکار مجاہدین کے استقبال کی تیاری مکمل کر لی گئی اور مجاہدین کی بھرتی اور پھر انہیں جنگی ساز و سامان سے لیس کر کے مصر کی طرف روانگی شروع کر دی گئی تاکہ وہ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کی قیادت میں افریقہ پر چڑھائی کر سکیں ، اور نمایاں طور سے اس حملہ کا اہتمام ظاہر ہوا۔ اکابرین صحابہ رضی اللہ عنہم ، آل بیت کے نوجوانوں ، اور مہاجرین و انصار کی اولاد نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس معرکے میں حسن و حسین، ابن عباس، ابن جعفر وغیرہم رضی اللہ عنہم شریک ہوئے۔ صرف قبیلہ مہرہ سے چھ سو افراد، قبیلہ غنث سے سات سو اور قبیلہ میدعان سے سات سو مجاہدین نے شرکت
[1] الشرف والتسامی بحرکۃ الفتح الاسلامی؍ الصلابی ص: (۱۸۹) [2] لیبیا من الفتح العربی حتی انتقال الخلافۃ الفاطمیۃ الی مصر ؍ د۔صالح مصطفی مفتاح المزینی ، ص (۴۹)